پاناما کا ہنگامہ اتنی طوالت اختیار کر گیا ہے کہ اب یہ اس ملک کے عام انسانوں کے لیے اکتاہٹ اور بیزاری کا معمول بن گیا ہے۔ آخر کسی نان ایشو کو سیاست اور صحافت کتنا لمبا کھینچ سکتے ہیں۔ پھر فیصلے نے اس تذبذب کو ختم کرنے کے بجائے کچھ الجھائو کا شکار کر دیا ہے۔ میڈیا اور بالادست سیاست کی حزبِ اختلاف اس کو ایک ایسا بھنور بنا رہی ہے جس میں وزیر اعظم تو غرق نہیں ہو رہا لیکن محنت کشوں کے سلگتے ہوئے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو حل کرنے کے لیے جدوجہد کی آوازوں کو غرق کرنے کی کوشش اس ملک کی غالب سیاست ضرور کر رہی ہے۔
جہاں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہاں اس مالیاتی سیاسی اکھاڑے کے تمام سیاست دان ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ کیے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ وہ واحد سچ ہے‘ جو یہ بول رہے ہیں۔ کیونکہ سب ایک ہی نظام کا حصہ ہیں، بالادست طبقات کے نمائندے ہیں اور اس مالیاتی سیاست میں اس مقام تک پہنچنے کے لیے بے پناہ دولت درکار ہوتی ہے۔ اربوں کھربوں تک پہنچ جانے والے سیاست کے اخراجات کسی جائز کمائی سے تو حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے یہ سبھی فاضل دولت کے حصول کے لیے اُس کالے دھن تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس سے وہ سیاست کا کاروبار چلا سکیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ ریاستوں میں سیاست‘ دولت کے بغیر ممکن نہیں لیکن جوں جوں اس نظام زر کا بحران گہرا ہوتا ہے تو اس کے حکمران طبقات کے درمیان ٹوٹ پھوٹ اور مقابلہ بازی میں زیادہ شدت آجاتی ہے۔ برصغیر میں تو شاید اس کی انتہا ہو چکی ہے‘ کیونکہ ایک طرف بحران کی وجہ سے لوٹ کا مال سکڑنے لگتا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی ہوس زر میں مزید شدت بھی آتی جا رہی ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں جنم لینے والی محرومی اور امارت و غربت کی خلیج اب جتنی وسیع ہو چکی ہے اتنی شاید کبھی نہ تھی۔ محض سیاست ہی نہیں بلکہ سماجی قدریں، اخلاقیات اور رشتے تک اس دولت کے حصول کی اندھی دوڑ میں منڈی میں نیلام ہونے والی مادی اشیا بن چکی ہیں۔ معاشرے، ریاست اور سیاست کا ہر شعبہ اس سرمائے کا تابع اور رسیا بن گیا ہے۔ ہندوستان کی مشہور مصنفہ ارون دتی رائے نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں برصغیر کی سیاست اور جمہوریت کے بارے میں لکھا ہے کہ ''جدید جمہوریت کا بحران بہت سنگین اور گہرا ہو گیا ہے۔ آزاد انتخابات،آزاد صحافت اور ایک آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہو گئے ہیں کیونکہ آزاد منڈی کی معیشت نے اِن کو اُن اجناس میں منتقل کر دیا ہے‘ جو زیادہ بولی لگانے والوں کو فروخت ہوتی ہیں‘‘۔
لیکن کرپشن چونکہ برصغیر کے معاشروں میں نیچے تک سرایت کر چکی ہے اس لیے اس کے بغیر زندگی گزارنا شاید سماج کی کسی پرت کے لیے بھی ممکن نہیں۔ یہ کوئی اخلاقی اور ثقافتی بیماری نہیں‘ بلکہ اس نظام کی معیشت کے اس قدر بحران زدہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ اس کے بغیر یہ اقتصادی، سماجی، ریاستی اور سیاسی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ پھر اس کے بارے میں شور کرنا کس حد تک بے معنی اور پُرفریب بن جاتا ہے۔ اگر ہم باقی شعبوں کو چھوڑ کر صرف سیاست کا ہی جائزہ لیں تو آج کے عہد میں پارٹی بنانا، میٹنگ کرنا، جلسے جلوس اور کنونشنوں کا انعقاد، پارٹی ٹکٹوں کا حصول، پھر الیکشن کی مہم چلانا اور کامیاب ہونا سبھی جگہ کھیل پیسے کا ہوتا ہے۔ پیسے کے مزید حصول کے لیے‘ پیسے کا یہ کھیل کھیلنا زیادہ مہنگا ہوتا چلا گیا ہے اور اب اس میں مقابلہ بازی، تمام دوسری صفوں اور سرکاری وکالے کاروباروں سے زیادہ رقوم کی سرمایہ کاری مانگتی ہے۔ جائز طریقوں سے اتنا پیسہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے اور چونکہ اب کاروبار بدعنوانی کے بغیر چل نہیں سکتے اس لیے یہ وقت آ گیا ہے کہ کھرب پتی ساہوکار اب کھل کر پارٹیوں کے فنانسر بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ ان کو کسی پارٹی کے نام سے غرض نہیں ہے کیونکہ اس دولت کی سیاست میں تمام پارٹیاں دولت کے حصول کے نظریات کی ہی سیاست کرتی ہیں، دوسری کوئی ہو نہیں سکتی۔ لیکن یہ ایسے انویسٹر ہیں جو سیاست کی ریس کے ان گھوڑوں میں سے صرف ایک پر نہیں بلکہ کئی گھوڑوں پر دائو کھیلتے ہیں، ظاہر ی طور پر چاہے جو پارٹی بھی جیتے آخری کامیابی انہی فنانسرز کی ہی ہوتی ہے۔ جو پارٹی بھی اقتدار میں آتی ہے، یہ مالدار انویسٹر اپنے کاروبار کے فروغ اور شرح منافع کے حصول کے لیے ان سب سے پالیسیاں مرتب کرواتے ہیں۔ بعض ایسے انویسٹر بھی ہیں جو خود اس سیاست کے میدان میں اتر کر یہ کھلواڑ کرتے ہیں تاکہ براہِ راست اقتدار میں آکر اپنی ہوس زر کو پورا کر سکیں۔ ان فنانسروں کے نام اور تحائف کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان کا کسی مخصوص ملک یا قوم سے تعلق ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
اس کھلواڑ میں عوام کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ سیاستدان ''صادق‘‘ اور ''امین‘‘ بھی ہو سکتے ہیں۔ ویسے آئین میں ٹھونسی گئی ان شقوں کے خالق جنرل ضیاالحق کی اپنی صداقتوں اور ایمانداری کا جائزہ لیں تو اس نے 90 دنوں میں انتخابات کروانے سے لے کر پارسائی کے بھیس میں فرقہ واریت اور خونیں منافرتیں پھیلانے کے کون کون سے ایسے جھوٹ اور فریب ہیں‘ جو نہیں بولے اور کیے۔ اپنی حاکمیت کو طوالت دینے کے لیے اُس نے اِس ملک میں طاقت کے بے جا استعمال کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ لیکن اس کے بعد آج تک اتنی ''جمہوریتوں‘‘ کے آنے کے باوجود ضیاالحق کی سیاسی، سماجی، مذہبی و اخلاقی باقیات جاری ہیں اور سبھی اس کالے دھن کے مرہون منت ہیں جس کے اجتماع کا عمل ضیاالحق نے شروع کیا تھا۔ ایسی کون سی پارٹی ہے جس میں اُس کی باقیات اعلیٰ شخصیات
بالائی پوزیشنوں پر براجمان نہیں۔ جہاں جسٹس کھوسہ نے یہ کہا ہے کہ ''ہر بڑے خزانے کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے‘‘ وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جرم اور خزانے کے باہمی رشتے کو تقویت اور بڑھاوا دینے کے لیے دولت کی سیاست اور دوسرے ادارے ہی اوزاروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔
لیکن اسی معاشرے میں 1970ء کی دہائی تک ایسی سیاست بھی ہوئی ہے جہاں پوسٹر لگانے سے لے کر الیکشن جیتنے اور تحریکیں چلانے تک کے عمل میں دولت کا کوئی حاوی کردار نہیں ہوتا تھا۔ سیاست میں قربانی کا جذبہ صرف ان نظریات سے حاصل ہوتا ہے جو انفرادی مفادات اور خود غرضی کو مسترد کرتے ہوئے اشتراکی مفادات اور پورے سماج کو اس استحصال، ظلم اور لوٹ مار کی مالیاتی سیاست اور آمریت سے نجات کی فکر پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ نظریات آج بھی موجود ہیں ۔ انسان فنا ہو سکتے ہیں‘ سچے نظریات کبھی نہیں مرتے۔ آج کی سیاست، ریاست اور ثقافت‘ فسطائیت اور معاشی بحرانوں کی بربادیوں میں معاشرے میں دھکیل رہی ہیں۔ آج ظاہری طور پر محنت کش عوام تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ لیکن اب یہ بدعنوان سیاست دانوں کے کرپشن پر مبنی تماشوں سے نہ صرف اکتا چکے ہیں بلکہ اس سیاست سے متنفر بھی ہیں۔ ایک لاوا پک رہا ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں کہ محنت کش طبقات تاریخ کے میدان میں اتر کر انقلاب کا کھیل شروع کریں گے۔ حکمرانوں کے سارے دھڑے اپنی باریاں لگا چکے ہیں۔ اب محنت کش عوام کی باری آنے والی ہے جو نہ صرف اس دولت کے راج کو ختم کرے گی بلکہ معاشرے کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے گی۔