"DLK" (space) message & send to 7575

کاغذی جمہوریت

پرانی کہاوت ہے کہ جب کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے بھاگنے لگتے ہیں لیکن عمومی طور پر وہ ڈوب کر غرق ہی ہوتے ہیں۔ اس مثال کا پرتو سیاست میں بار بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج مسلم لیگ ن پر کڑا وقت ہے۔ حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ کیسی پارٹی ہے جو اقتدار میں ہو کر بھی رو بہ زوال ہے اور اپوزیشن بھی بنی ہوئی ہے۔ کم از کم میڈیا میں جو ایک جارحانہ یلغار چل رہی ہے‘ اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اور اس کا خاندان تباہ و برباد ہو جائیں گے اور ان کے پیچھے جو قوتیں پڑی ہوئی ہیں‘ وہ ان کو نشانِ عبرت بنا کر ہی دم لیں گی۔ عمران خان نے تو میاں صاحب کے لئے اڈیالہ جیل میں اعلیٰ بندوبست کرنے کی اپیل تک دائر کر دی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن آخر اس کی حقیقی اور سائنسی وجہ ہے کیا! نواز شریف تین بار وزیر اعظم بنے اور تینوں مرتبہ اپنی مدت پوری کیے بغیر معزول کر دیے گئے۔ اگر ہم مسلم لیگ کی تاریخ دیکھیں تو یہ مسلم اشرافیہ کی ایک پارٹی تھی، اور حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کا یہ کردار آج تک نہیں بدلا۔ محمد علی جناح بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو اپنے 28 مئی 1937ء کے آخری خط میں لکھا تھا ''(مسلم) لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ ہندوستان کی مسلم اشرافیہ کی پارٹی کے طور پر رہنا چاہتی ہے‘ یا پھر مسلم عوام کی پارٹی کے‘ جن کی ابھی تک پارٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پارٹی کے نئے آئین کے مطابق سب سے اہم اور بڑے عہدے بالا دست طبقات کی اولادوں کو ملیں گے۔ درمیانے اور چھوٹے عہدے وزیروں کے رشتہ داروں اور دوستوں کو ملیں گے۔ ویسے ہمارے اس سیاسی ادارے نے عام غریب مسلمانوں کی حالتِ زار بدلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، غربت اور روٹی کا مسئلہ بہت سنگین ہے...‘‘۔
تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے اور مسلم لیگ کو ریاستی اقتدار ملنے سے اس مسلمان اشرافیہ کے لیے اپنی دولت کو وسعت دینے کے نئے مواقع پیدا ہوئے‘ لیکن انہوں نے اپنی فیکٹریاں اور ملیں تو لگائیں، اپنے کاروباروں کو وسیع کیا اور مزید منافع بخش بھی بنایا لیکن اس ''نئے‘‘ ملک کو وہ ایسی ترقی نہ دے سکے‘ جس سے عوام کے لئے اجتماعی ضروریاتِ زندگی کا حصول سہل بن جائے‘ اور عام لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہو سکے۔ اس سے معاشرہ نہ تو جدید صنعتی سماج بن سکا اور نہ ہی پسماندگی ختم ہو سکی۔ اس اشرافیہ کے مختلف دھڑوں میں تنازعات پہلے بھی تھے‘ لیکن نئی ریاست کے حصول سے طاقت اور منافعوں کے زیادہ مواقع حاصل ہونے کے باوجود یہ کم ہونے کی بجائے زیادہ شدت اختیار کر گئے۔
1947ء سے 1958ء تک پاکستان کی سیاست میں جو شدید خلفشار رہا‘ اس کو حکمرانوں کے مورخ بھی حذف نہیں کر سکتے۔ اسی انتشار سے لاحق ''ملکی سلامتی کو خطرے‘‘ کا بہانہ بنا کر ایوب خان نے 1958ء میں پاکستان کا پہلا مارشل لا لگا دیا۔ بدعنوانی کے خلاف مہم اس وقت بھی عروج پر تھی۔ ایوبی مارشل لا کے دوران ملک بھر میں براہِ راست ملٹری کورٹس اور ٹربیونلز کے ذریعے ہزاروں چھاپے مارے گئے، گرفتاریاں کی گئیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری حضرات کو سزائیں دی گئیں۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ مارشل لا اور آمریتوں کے ذریعے زیادہ طویل عرصہ تک براہِ راست فوجی حاکمیت پوری ریاست کے لئے خطرناک ہوتی ہے۔ ایوبی مارشل لا کے پہلے چند سالوں میں ریاستی ادارے کرپشن کو مٹاتے مٹاتے خود کئی زرعی اور صنعتی کاروباروں میں حصے دار بھی بنتے گئے۔ اسی لیے فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کے لئے پاکستان کے ہر آمر نے سویلین لبادے اوڑھے اور مختلف قسم کے ''جمہوری‘‘ ڈھانچے استوار کرنے کے تجربات بھی کیے۔ سبھی ڈکٹیٹروں نے جو شیروانیاں زیب تن کیں اور سویلین حکومتوں کے سربراہ بنے‘ وہ شیروانیاں مسلم لیگ برانڈ کی ہی تھیں۔ آج کی تمام مسلم لیگیں کسی نہ کسی آمر کی پیوند کردہ پارٹیاں ہیں‘ لیکن صرف مسلم لیگیں ہی نہیں تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی سے لے کر پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی تک ضیا آمریت کے چہیتے موجود ہیں۔ ساری سیاست میں آمروں کی باقیات حاوی ہیں۔ سبھی نے کوئی نہ کوئی مسلم لیگ بنائی۔ اپنے جنم سے لے کر اب تک مسلم لیگ پاکستان کی اشرافیہ کی جماعت رہی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کی اصل کلاسیکی پارٹی میں ہمیشہ بالادست طبقے کے مفادات ہی حاوی رہے۔ نواز شریف کی مسلم لیگ بھی اسی تسلسل کا حصہ تھی اور ہے۔ اس سے امید رکھنا کہ یہ اچانک محنت کش طبقے کی پارٹی بن جائے گی‘ ممکن نہیں۔ لیکن وہ ''پس پردہ قوتیں‘‘ جو سویلین حکومتیں گراتی ہیں، ان کا ہدف خصوصاً نواز شریف اس لیے بن جاتے ہیں کہ وہ (نواز شریف) ایسے سرمایہ دار لیڈر ہیں جن کے پاس سیاسی اقتدار تو آ جاتا ہے لیکن وہ اقتصادی اور مالیاتی طاقت نہیں حاصل ہوتی‘ جو چند صدیاں پہلے یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرنے والے سرمایہ دار طبقات کو حاصل تھی۔ اس معاشی ناہمواری اور خستہ حالی میں موجودہ نظام زر کا کوئی سیاسی اقتدار نہ تو مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس میں وہ طاقت آ سکتی ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو اپنے اختیار میں لا سکے۔
سابقہ بائیں بازو کے بہت سے مرحلہ وار انقلاب کے نظریے پر یقین رکھنے والے دانشور اور سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب‘ پاکستان جیسے ممالک میں دو مرحلوں پر مشتمل ہونا ضروری ہے، پہلے مرحلے میں مزدور اور کسان حمایت کے ذریعے زرعی انقلاب سے لے کر صنعت اور انفراسٹرکچر کی جدیدیت اور ''ترقی پسند‘‘ سرمایہ داروں کی ٹھوس بنیادیں قائم کریں۔ پارلیمانی جمہوریت رائج کریں اور سماجی ترقی ہو سکے۔ ان نظریہ دانوں کے نزدیک اس صنعتی انقلاب سے بڑے پیمانے پر مزدور طبقہ معاشرے کی بھاری اکثریت بن جائے گا‘ اور اگلے مرحلے میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرے گا۔ نواز شریف کے اہم ترین مشیروں میں سابقہ بائیں بازو کے لیڈر پرویز رشید اسی نقطہ نظر سے نواز شریف کی حکمتِ عملی اور حمایت کے حصول کے پرچار میں مصروف ہیں۔ لیکن تاریخ اس مرحلہ واریت سے بہت آگے جا چکی ہے۔ یہاں کی بورژوازی (سرمایہ دار طبقات) کرپشن کے بغیر کوئی صنعتی کاروبار نہیں کر سکتی۔ اسی وجہ سے وہ مسلسل اپنے سماجی اور مالیاتی رتبے کو قائم رکھنے کے لئے ریاستی اداروں کے مرہونِ منت رہتے ہیں، مذہبی قدامت پرستی کا سہارا لیتے ہیں، رجعتی خیالات کے ذریعے سماجی دبائو سے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر جو تصوراتی ترقی پسندی کا اعتقاد ہے وہ سائنسی طور پر غلط ہے۔ ایسی ہی غلطی کمیونسٹ پارٹی نے 1940ء کی دہائی میں کی تھی۔ جب چند مسلم ''کامریڈوں‘‘ کو مسلم لیگ میں بھیجا گیا۔ ان میں سے ایک انتہائی ذہین کامریڈ دانیال لطیفی نے مسلم لیگ کا پورا منشور بھی لکھا تھا۔ لیکن جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ جس طبقے کی نواز شریف صاحب نمائندگی کرتے ہیں، جس سے وہ تعلق بھی رکھتے ہیں اور جس نظام کے وہ سب سے مستند نمائندے بھی ہیں‘ وہ تاریخی طور پر متروک اور معاشی طور پر زوال پذیر ہو چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر نواز لیگ نہیں تو پھر متبادل کون سی پارٹی ہے! تحریک انصاف کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس کی قیادت مسلم لیگیوں سے بھی زیادہ رجعتی اور جابرانہ سوچوں پر مشتمل ہے۔ یہ پاکستان کے نودولتیوں اور متوازی معیشت کے ان داتائوں کی نمائندہ پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اب ریاست، سامراج اور پاکستان کے بالا دست طبقات کے کچھ دھڑوں کی نمائندگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سیاسی سرکس کی تمام پارٹیاں بالا دست طبقات کی ہی پارٹیاں ہیں‘ لیکن ریاستی اداروں کو بھی کرپشن نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ ان بالا دست طبقات کا نظام یہاں خوشحالی کی بجائے ہمیشہ بربادیوں کا موجب بنا ہے۔ آج عوام سے ان کی اپنی سیاسی میراث اور پارٹی چھین لی گئی ہے اور وہ اس سیاست سے گریزاں نظر آتے ہیں لیکن ان عذابوں سے نکلنے کے لیے ان کو تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنی طبقاتی جدوجہد کی سیاست کو ابھارنا ہو گا۔ آج کا انقلاب ماضی کے مرحلوں کو پھلانگ کر ہی ممکن ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں