پیپلز پارٹی کے پچھلے 10سال کی سیاست کا تقریباً پورا ہی دارومدارپارٹی کے لیڈروں کی قربانیوں کے ماتم پر ہی مبنی رہا۔ مظلومیت کی اس سیاست میں ہر ایشو اور حتیٰ کہ پارٹی کے اپنے بنیادی سوشلسٹ پروگرام سے انحراف کی بے وفائی کی گئی۔محنت کشوں کو فراموش کرکے رئیل اسٹیٹ اور قبضہ گروپوں کی اشرافیہ کو پارٹی پر مسلط کیاگیا۔ ایسے اقدامات کو بھی قربانیوں کے شور میں غرق کرکے عوام میں ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جن میں سرفہرست نیولبرل معیشت اور ریاستی اداروں اور سامراجیوں سے مصالحت جیسی پارٹی کی بنیادوں سے متضاد پالیسیاں شامل تھیں۔لیکن زرداری کی ماتحت پیپلز پارٹی نے جہاں قربانیوں کا اتنا شورمچایا وہاں پیپلز پارٹی کے ایک کلیدی لیڈر مرتضیٰ بھٹو کی قربانی پر اتنی ہی تعفن زدہ خاموشی اختیار کی گئی۔پارٹی لیڈران مرتضیٰ بھٹو کی قربانی کے ذکر پر ایک عجیب سی ندامت کے تاثرات دیتے ہیں۔ایسے درگزر کیا گیا جیسے میر مرتضیٰ بھٹو کا وحشیانہ قتل ہوا ہی نہ ہو۔ پیپلز پارٹی اور سرکاری نمائندوں کا اس بہیمانہ قتل کواس بے رحمی سے پس پشت ڈال دینا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔لیکن اگر ہم اصل قاتل کو بے نقاب نہ بھی کریں تو پھر بھی اس قتل کی سب سے اہم وجہ سیاسی ہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی قربانی کو دوسرے لیڈروں کی قربانیوں کے شور میں دبا دینے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مرتضیٰ نے پارٹی کے بنیادی پروگرام اور منشور سے انحراف کے عمل کو روکنے اور اورپارٹی کو اس ڈگر پر لے جانے والوں کے خلاف ایک ایسی مزاحمت کی تھی جس سے پارٹی کی یہ نظریاتی بے وفائی پارٹی کی عوامی حمایت کے سامنے بے نقاب ہورہی تھی۔ پارٹی کے سوشلسٹ جنم کو دفن کرنے والے لیڈروں نے پارٹی کی جو حالت ِ زار کر دی اس کی غمازی این اے 120 کے نتائج سے ہوتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مرتضیٰ بھٹو کا قتل کہیں اس مقصد کو ختم کرنے کا موجب تو نہیں بنتا جارہا جس کے لیے اس نے پارٹی کو انقلابی بنیادوں پر پھر سے استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر ہم مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا گہرائی سے جائزہ لیں تو شاید ہی کسی دوسرے لیڈر کی قربانی اتنی درد ناک ہو۔21 سال قبل 20اور 21ستمبر کی درمیانی خون آشام رات کا اندھیرا ابھی پھیل ہی رہا تھا کہ کراچی کلفٹن میں اپنے گھر کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو اور ان کے چند ساتھیوں کو انتہائی سفاک طریقے سے قتل کر دیاگیا۔مرتضیٰ کی لاش لہومیں لت پت تڑپتی رہی لیکن اس کی سگی بہن کی حکومت میں قاتل اس کاسینہ چھلنی کرکے فرار ہوگئے ۔ آج تک اس کے قاتلوں کو پکڑا نہیں جاسکا۔ سراغ جانتے ہوئے بھی اُن کا نام لینے اور اُن پر انگلی اٹھانے کی کسی میں جرات نہیں ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات کم ہوئے ہیں کہ کسی بہن کے اقتدار میں اسکے بھائی کا اتنا بہیمانہ قتل ہوا ہو۔ لیکن جس نظام کی سیاست میں پیپلز پارٹی اقتدار میں بدمست تھی اسی نظام کی ریاست اور اسکے خاندانی دشمنوں کی آنکھوں اور دلوں میں مرتضیٰ کھٹک رہا تھا۔ ان کے لیے مرتضیٰ کاقتل ان کی حاکمیت کا تقاضا بن گیا تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹو جلا وطنی سے واپسی کے بعد پیپلز پارٹی کو اسکے بنیادی سوشلسٹ منشور کی جانب واپس لانے کا آغاز کررہا تھا۔ وہ زیادہ بائیں جانب ریڈیکلائز ہوچکا تھا اور اس ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ بھی اپنا چکا تھا۔
مرتضیٰ کم ازکم دیانتدار اور نظریاتی سیاست کی جانب راغب ہورہا تھااور آنے والے وقت میں کسی تحریک کے ابھرنے کی صورت میں وہ ایک انقلابی لائحہ عمل دے سکتا تھا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سامراجیوں اور ریاستی اشرافیہ نے رام کرلیا تھا۔ لیکن مرتضیٰ کا بکنا یا جھکنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ پھر بھٹو کی وراثت کے بھی بہت سے نئے حصے دارمیدان میں آچکے تھے ۔ وہ بھی مرتضیٰ کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔مرتضیٰ جہاں جذباتی تھا وہاں بے دھڑک بھی تھا۔ لیکن ایک انقلاب کی جدوجہد میں جہاں جرأت اور دلیری درکار ہوتی ہے وہاں لینن کے مطابق انقلاب کے اثاثوں کا تحفظ بھی درکار ہوتا ہے۔ مرتضیٰ کے پاس بدقسمتی سے وہ بالشویک پارٹی نہ تھی جس کی حکمت ِ عملی سے انقلاب کے سب سے نادر اثاثے یعنی اس کے کیڈروں کا تحفظ کیا جا تا۔ ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں روایتی پارٹی اور قیادت محنت کش طبقے سے غداری کی مرتکب ہوچکی ہو وہاں پھر جس یاس کا راج ہوتا ہے اس میں مفاد پرستی اور خود غرضی ہر اعتماد کو توڑ دیتی ہے ، ہر رشتہ مفادات کے لئے فریب دے جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مرتضیٰ بہت اکیلا رہ گیا تھا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا مرتضیٰ کا لہو ررائیگاں جائے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی سچی اور بے لوث جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتی ۔ ایک میراث ،ایک روایت چھوڑ جاتی ہے۔ نظاموں کو بدلنے کی لڑائی اور مقاصد ایک انسانی زندگی کے دورانیے کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ نظام کو بدلنے کی لڑائی تاریخ کا رخ موڑ دینے کی لڑائی ہے۔ جب تک امارت اور غربت ہے‘ محنت اور سرمائے کی لڑائی رہے گی ۔ اس وقت تک طبقاتی کشمکش کبھی ابھرتی اور کبھی ماند ہوتی رہے گی ۔ لیکن محنت کرنے والوں کی فتح کے بغیر نسل ِ انسانیت نجات اور سکھ کا سانس نہیں لے سکتی۔
ایک دیوہیکل وحشی ریاست سے انقلابی عمل میں صرف ایک طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر عوام کی تحریک ہی ٹکرا کر اس کو پاش پاش کرسکتی ہے۔ تحریک پسپائی کا شکار تھی اور مرتضیٰ ابھی تک ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی بنیادیں بھی تشکیل نہیں دے سکا تھا۔ دوسرا اہم مسئلہ اور سوال یہ بھی ہے کہ مرتضیٰ کی سچائی اور قربانی کا احساس ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی پر اس کی'' دشمن پیپلز پارٹی‘‘ ہی کیوں حاوی رہی ۔جہاں اسکی وجہ مرتضیٰ کا باقی ماندہ پارٹی میں ایک نظریاتی اور تنظیمی ابہام ہے وہاں ایسے ادوار میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ اُسی''پیپلز پارٹی‘‘ کو پیپلز پارٹی بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے بالا دست طبقات کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہاں المیہ یہ بن گیا تھا کہ مرتضیٰ کے قاتلوں کے ناطے اس کے ''اپنوں‘‘ سے جاملتے تھے ۔ پیپلز پارٹی جب1967ء میں بنی تھی تو تمام میڈیا اس کا دشمن ہوگیا تھا۔ چنانچہ پیپلز پارٹی نے اپنے اخبار نکالے تھے، عام لوگوں میں تحریک چلائی تھی اور وہ پروگرام پیش کیا تھا جو عوام کے سلگتے ہوئے ارمانوں کا آئینہ دار تھا۔ مرتضیٰ بھی یہی کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن ایک تو عہد اور دوسرا پیپلز پارٹی کے اقتدار سے بدظن عوام کی نفسیاتی کیفیت اس کے لیے بڑی رکاوٹ بن گئے تھے۔ لیکن اُس کی جدوجہد اور اِس نظام کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان گنوا دینا کئی نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔
مرتضیٰ بھٹو کی زندگی اور موت کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ انقلابی پارٹی کے بغیر ہر انقلابی اکیلا ہوتا ہے۔ اس کو ریاست اور رجعت پسند قوتیں آسانی سے مٹا سکتی ہیں۔ لیکن جب پارٹی موجود ہو تو فرد اگر قتل بھی کردیا جائے تو اس کے نظریات کبھی نہیں مرتے ۔ انقلابی پارٹی نہ صرف ان نظریات کو زندہ رکھتی ہے بلکہ ان کو مزید وسعت اور تخلیق سے سنوارتی بھی ہے۔ اور آخر کار وہ سوشلسٹ انقلاب کرکے رہتی ہے جس کے لئے زندگی اور موت دونوں بہت کم ہیں ۔ انسان مرسکتا ہے لیکن کچھ انسان مر کر بھی انسانیت کے لیے وہ کچھ چھوڑ جاتے ہیں جس سے نسلِ انسانی کی نجات کا سفر جاری رہتا ہے ۔ اب صرف اسی صورت میں مرتضیٰ کی قربانی رائیگاں نہیں جاسکتی کہ اسکے انقلابی مشن کی تکمیل آنے والی نسلیں نہیں کریں۔