جرمنی میں 26ستمبر کے انتخابات میں انجیلامرکل کی جیت کوئی حیران کن خبر نہیں تھی۔ لیکن دو غیر معمولی نتائج کا اظہار ضرور ہوا ہے جو بعدازعالمی جنگ دوئم پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیں۔پہلے توجرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPDکو بعدازجنگ کی جرمن تاریخ میں سب سے بڑی شکست ہوئی ہے اوردوسراجرمنی میں ہٹلرکے بعدپہلی مرتبہ قوم پرستی وانتہا پسندی کی نیم فسطائی ''جرمنی کامتبادل‘‘AfD کوجرمن پارلیمنٹ کی631 نشستوں میں سے13.5 فیصد ووٹوں کے ساتھ 95نشستیں ملی ہیں۔لیکن اگر غور کیا جائے تو انجیلا مرکل کے CDU/CSU کے دائیں بازو کے اتحاد کو بھی 70سال میں کم ترین نشستیں اورووٹ حاصل ہوئے ہیں۔
اگرچہ اس فسطائی AfDکے ابھار سے پورے یورپ میں ایک تشویش ابھری ہے،حتیٰ کہ بعض تجزیہ کاروں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ کہیںجرمنی میں جہاں20 ویںصدی کی سب سے ہولناک فسطائیت کے شکل میں ہٹلرکے تحت لاکھوں عام جرمنوں کاقتل عام ہوااور دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میںدنیابھرمیںاس جنگی جنون نے 6کروڑ کے قریب انسانوں کوصفحہ ہستی سے مٹادیا،اسکے دوبارہ ابھرنے کے امکانات توپیدانہیں ہوگئے؟ لیکن بعض پاکستان جیسے ممالک میں عام لوگ شایداس بات پرحیران ہونگے کہ جرمنی جیسے مضبوط معیشت کے حامل ترقی یافتہ ترین ملک میںیہ انتہا پسندی کیونکرابھری ؟اس حیرانی کی ایک وجہ عالمی کارپوریٹ میڈیا بھی ہے جو سطحی خبریں اورمعاشی ترقی کے اعدادوشمار تو پیش کرتا ہے لیکن اصل سماجی حقائق اورمحنت کشوں کے طبقاتی استحصال کوروپوش رکھتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی کی سرمایہ دارانہ معیشت یورپ میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ شرح نمو رکھنے والی معیشت ہے۔ لیکن اس معاشی ترقی کا دارومدار اُس استحصال پر مبنی ہے جس میں 2008ء کے عالمی سرمایہ دارانہ کریش کے بعد شدت آگئی ہے۔ جرمنی کے مزدوروں کی زندگیاں زیادہ کڑی اور کام کے اوقاتِ کار اذیت ناک کردیئے گئے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام اور نجکاری نے مزدوروں کو زیادہ محنت اور محدود اجرت کی جکڑ میں دبوچ رکھا ہے۔ عام جرمن شدید اعصابی تنائو کا شکار ہیں اور روشنیوں و رنگینیوں کے ان یورپی معاشروں میںوہ خود بنیادی سہولیات سے محرومی کے اندھیروں میں ڈوبتے جارہے ہیں۔ لیکن ایسے میں ان کی روایتی SPD اور دوسری بائیں بازو کی پارٹیاں سوشل ڈیموکریسی کی اصلاح پسندی اورمعاشرتی کٹوتیوں کی پالیسیوں میں بدل چکی ہیں۔ محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں نے کسی متبادل نظام اور اس سرمایہ داری کو بدلنے کا کوئی پروگرام پیش ہی نہیں کیا۔
سوشل ڈیموکریسی تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کرکے اس کو تقویت اور طوالت دینے کا ہی نظریہ ہے۔ لیکن اب جبکہ یہ نظام خود اصلاحات اور سماجی بہتری کرنے کی صلاحیت ہی کھوچکا ہے تو ایسے میں ان پارٹیوں کی قیادتوں نے اپنی منافع خوری کے لیے اس استحصالی نظام کو بچانے کی بنیادی سوچ کے تحت دائیں بازو کی پالیسیوں کوہی اپنایا ہواہے۔ اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ انجیلا مرکل کی پچھلی حکومت بنیادی طور پر اسکی کرسچن ڈیموکریٹس اور سوشل ڈیموکریسی کے ''دائیں اور بائیں‘‘ کے اختلاط پر مبنی تھی۔اس کی مزدور دشمن پالیسیوں سے حقارت کی وجہ سے سوشل ڈیموکریسی(SPD) کو بدترین شکست اور مرکل کی پارٹی کو کم ترین ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ لیکن جرمنی میں سیاسی توازن اتنا بگڑ چکا ہے کہ 34 فیصد ووٹ لے کر بھی مرکل کی CDU/CSUسب سے بڑی پارٹی ہے۔ یہ سیاسی ٹوٹ پھوٹ اس سماجی انتشار کی عکاسی کرتی ہے جو جرمن سرمایہ دارانہ معاشرے کو لاحق ہے۔ ''جرمنی کا متبادل‘‘ (AfD) پارٹی کا یہ ابھار ایک عارضی اور کھوکھلا مفروضہ ہے۔نہ اسکو اتنی وسیع بنیادیں حاصل ہو سکیں گی اور نہ ہی یہ اکیلے برسراقتدارآسکے گی۔انتخابی نتائج آتے ہی اسمیں ٹوٹ پھوٹ کاعمل شروع ہوچکاہے۔اسکی ایک لیڈر''فراڈکے پیری‘‘نے انتخابات جیتنے کے بعدمستعفی ہونے کااعلان کردیاہے اورپارلیمنٹ میں بطور' 'آزاد‘‘ممبربیٹھنے کافیصلہ کیاہے۔ اس نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ پارٹی دائیں بازو کی انتہا پسندی میں خطرناک حدملوث ہوتی جا رہی ہے۔دوسری جانب چندبر سوں میں جرمنی میں بائیں بازو کی پارٹی ''ڈی-لنکے‘‘،جسکا بڑا حصہ سابقہ مشرقی جرمن کمیونسٹ پارٹی پرمبنی ہے،بھی تیزی سے ابھری ہے۔اس مرتبہ بھی اس نے9فیصدسے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن بائیں بازو کی ریڈیکل اصلاح پسندی تک محدود ہونے کی وجہ سے وہ وسیع عوامی حمایت کے حصول میں سست روی کاشکاررہی ہے۔اس نظام کے خلاف ابھرنے والی ایک ایسی پارٹی جو محنت کشوں کے مسائل سماجی تبدیلی سے حل کر سکے ، جرمنی کی حقیقی خوشحالی اور پورے یورپ کے محنت کش طبقے کا ماڈل بن سکتی ہے۔
ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ لکھاتھا کہ''تاریخ اپنے آپ کو کھبی نہیںدہراتی۔ لیکن جب بھی دہراتی ہے تو کسی بلند یا بدتر شکل میں دہراتی ہے۔‘‘ پچھلی صدی کے آغاز کی جرمن تاریخ انقلابات اور ردانقلابات کی تاریخ ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں بھی متحارب سامراجی فریقوں میں ایک بڑا فریق جرمنی ہی تھا۔اس کی شکست کے بعد اس کو بہت کمزور کردیا گیا۔ یورپ میں سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود جرمنی میں پہلی جنگ کے بعد اتنا بڑا قحط پڑا تھا کہ جرمنی میں''آدم خوری‘‘ تیزی سے ابھری تھی۔ اس دوران جرمنی میں مزدوروں کے دو انقلاب ہوئے تھے۔ ان میں روزالکسمبرگ کی قیادت میںہونے والا نومبر1918ء کا انقلاب SPD کے دائیں بازو کے دھڑوں کی غداری کی وجہ سے خونی شکست سے دورچار ہوا تھا۔ روزالکسمبرگ کا سرہتھوڑے سے پھوڑ کر اس کو برلن کی نہر میں پھینک دیا گیا تھا۔دوسرا اہم انقلاب 1923ء میں ہوا تھا جس میںجرمن کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی ہچکچاہٹ اور عدمِ تیاری کی وجہ سے ایک تیار انقلاب مکمل نہ کیا جا سکا، جس میں مزدوروں نے سرکشی کرکے ہیمبرگ اور کئی دوسرے بڑے شہروں میںحکمرانوں کے گڑھ فتح کرلیے تھے، لیکن پارٹی نے''کال‘‘ واپس لے لی تھی۔ اس انقلاب کی شکست سے جرمنی کے مزدوروں میں جو مایوسی بدگمانی اور حوصلہ شکنی پیدا ہوئی اس سے دائیں بازو کی قوتوں نے ابھرنا شروع کردیا۔ اس میں فسطائی رحجانات کی حامل''نازی‘‘( نیشنلسٹ سوشلسٹ پارٹی) تھی جس کی قیادت ایک ‘‘آریائی‘‘ نسل پرست ایڈولف ہٹلر کررہا تھا۔لیکن تمام تر عسکری اور معاشرے کی پسماندہ پرتوں کی حمایت کے باوجود دنیا کے مضبوط ترین جرمن پرولتاریہ کی موجودگی میں ہٹلر اقتدار میںنہیں آسکتا تھا۔لیکن جب سٹالن کی بائیں بازوکی انتہا پسندانہ مہم جوئی کی پالیسی کے تحت جرمن کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں نے SPD سے اتحاد توڑ دیا تو ہٹلر کی فسطائیت کو ابھرنے کا موقع مل گیا۔ جس نے نسل انسا ن کی ایک وسیع کھیپ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ہٹلر نے اپنی سوانح حیات ''مین کیمف‘‘میںلکھا تھا کہ ''میں نے جرمنی پر قبضہ بھی کرلیا اور کسی کھڑکی کا ایک شیشہ بھی نہیں ٹوٹا‘‘۔
جرمنی کے اتنے مضبوط اور بھاری مزدور طبقے کی موجودگی میں فسطائیت کا یہ حصول‘ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قیادت کی غلطیاں کیسے تاریخی جرم بن کر انقلاب کی شکست خوردگی میں عوام کو بربادکردیتی ہیں۔ آج کا جرمنی 1930ء کی دہائی کا جرمنی نہیں ہے ۔ نہ تو دیہی اور شہری علاقوں میں زیادہ تفریق موجود ہے اور نہ ہی اُس دور جیسی پسماندگی ہے۔آج بھی جرمنی کا مزدور طبقہ بہت بڑا اور مضبوط ہے۔ حکمران''مسلمانوں‘‘ اور غیر ملکیوں کے مذہبی اور نسلی تعصبات ابھار کر مزدوروں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور عوام کی کچھ پرتیں کسی حقیقی متبادل کی عدم موجودگی میں AfDکے قسم کی انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست پارٹیوں کو ووٹ بھی دے دیتی ہیں۔ لیکن اب مکمل فسطائیت کے لیے ہٹلر جیسی خونریزی چاہیے جو آج کے طبقاتی توازن میں ممکن نہیں۔ تمام تر پسپائیوں کے باوجود آنے والے دنوں میں طبقاتی جدوجہد کے نئے طوفان ابھریں گے۔ جرمنی میں مزدوروں کو اب کچلا نہیںجاسکتا۔ ان کی تحریکیں ہی ان کو ایک انقلابی متبادل قیادت اور پارٹی تراش کردیں گی۔