"DLK" (space) message & send to 7575

سیاسی انتشار تلے معاشی زوال

کارپوریٹ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کی بے تحاشا خبروں سے بھرا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست‘ عوام سے بے بہرہ ہو کر تماشوں تک محدود ہو گئی ہے۔ ٹاک شوز میں وکلا اور سیاست دان قانونی موشگافیوں پر ایسی بحثیں کر رہے ہوتے ہیں جن کا زوال پذیر نظام کے مارے محکوم طبقات کی ذلتوں اور تکلیفوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ استرداد کا شکار حکمران طبقہ اپنی زوال پذیری کی وجہ سے باہمی جھگڑوں کو حل کرنے کے لیے مختلف اداروں پر حد سے زیادہ انحصار کر رہا ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے عوام کے سامنے سارا بھرم کھل جاتا ہے۔ آبادی کی اکثریت کو درپیش حقیقی مسائل کا ذکر ہی غائب کر دیا گیا ہے۔ محکوم طبقات کے مسائل اور انسانی وجود کے لیے درکار سماجی انفراسٹرکچر کی کمی کا ذکر کرنا بھی اس بحران زدہ سماج پر حاوی طبقوں کے لیے ناقابل قبول بن گیا ہے۔
لیکن اس بیہودہ شور شرابے کی کیفیت میں معاشی زوال مزید تشویشناک ہوتا جا رہا ہے‘ تاہم حکمرانوں کی لاپروائی بلا وجہ اور حادثاتی نہیں ہے۔ سیاستدانوں اور ماہرین کے پاس اس سماجی اور معاشی بحران کے گھن چکر سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ تشدد، جرائم، خوف، بیگانگی اور ثقافتی تباہی جیسے عوامل سماج کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اگر ہم محکوموں کی معیشت، جسے غلط طور پر مائیکرو اکانومی کہا جاتا ہے، کو ایک طرف رکھیں تو بھی بالا دست طبقات کی 'میکرو‘ اکانومی ایک خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔ 2013ء میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد تیز شرح نمو کے باوجود معیشت کی عمومی صورتحال بہتری سے کوسوں دور ہے۔
پچھلے دنوں ایشیائی ترقیاتی بینک کی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارہ تشویشناک انداز میں بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک بوسیدہ معیشت کے نامیاتی زوال کی نشانی ہے۔ موجودہ مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 14.5 اَرب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔ یہ تخمینہ شدہ خسارہ وزارتِ خزانہ کے 2017-18ء کے اندازوں سے 5 اَرب ڈالر زیادہ ہے۔ بینک نے 1.4 کھرب روپے کے خسارے کے ہدف کو مبالغہ آرائی پر مبنی‘ اور موجودہ سیاسی انتشار کی حالت میں اس کے حصول کو مشکل قرار دیا ہے۔ پاکستان 6 فیصد کی شرح نمو کے ہدف کو حاصل نہیں کر پائے گا۔ یہ بینک کے مطابق 5.5 فیصد تک رہے گی۔ اے ڈی بی کے مطابق بڑھتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی جائے یا بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید بیرونی قرضے لیے جائیں۔ بیرونی قرضے پہلے ہی 83 اَرب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔
اس سال جولائی میں پاکستانی روپے کی قدر ایک ڈالر پر 105.4روپے تھی۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ سالوں میں روپے کی قیمت مسلسل بڑھی ہے جس سے مالی سال 2017ء میں پاکستان کی رقابت پذیری 3.6 فیصد کے حساب سے کم ہوئی ہے۔
اے ڈی بی کا تخمینہ ہے کہ بڑھتی ہوئی درآمدات، گرتی ہوئی زرمبادلہ اور جمود کی شکار برآمدات کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 4.2 فیصد تک بڑھ سکتا ہے اور پاکستان کو درپیش چیلنج‘ مسلسل بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ہے کیونکہ بیرونی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔ اس عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے ڈیڑھ درجن سے زائد بیل آئوٹ پیکیجز لے چکا ہے۔ مالی سال 2016-17ء کے اختتام پر جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ 2006ء کے 13 فیصد سے گر کر 7.1 فیصد ہو گیا ہے۔ مالی سال 2013ء سے 2017ء کے دوران برآمدات سالانہ 2.5 فیصد کے حساب سے گری ہیں۔ رپورٹ میں درآمدات کی بھی مایوس کن تصویر پیش کی گئی جو مسلسل بڑھ رہی ہیں کیونکہ داخلی طلب کو داخلی پیداوار پورا نہیں کر پا رہی۔
وسیع تر تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کے ذریعے پورا کیا جاتا رہا جو اگست میں 1.5 اَرب ڈالر کی کمی کے ساتھ 14.6 اَرب ڈالر ہو گئے اور اب مزید 14.2 اَرب ڈالر تک گر گئے ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری میں چینی کمپنیوں اور بینکوں کے قرضوں اور سود کی ادائیگی سے قرضے اور جی ڈی پی کا تناسب مزید بڑھ جائے گا‘ جو پہلے ہی جی ڈی پی کا 71 فیصد ہے۔ اے ڈی بی کی رپورٹ میں پاکستانی معیشت کا تناظر مایوس کن بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا، ''نمو میں بہتری ہوئی ہے، لیکن حکومت کو مالی اور بیرونی شعبوں کی کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا‘ جو وسیع کرنٹ اکائونٹ خسارے، گرتے ہوئے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی وجہ سے پھر نمودار ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نااہلی سے سیاسی غیر یقینی بڑھ گئی ہے‘ جس سے نمو کے متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔‘‘
اس سیاسی انتشار اور محاذ آرائی کی وجہ بڑھتا ہوا معاشی بحران اور بدعنوان اور رجعتی حکمران طبقے کی جانب سے 'اور‘ کی لالچ ہے جس کی نمائندگی موجودہ سیاست کر رہی ہے اور جسے ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے۔ لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کا سامراجی ادارہ‘ ایک اہم عامل یعنی کالی معیشت کو نظرانداز کر دیتا ہے جو ملک کی رسمی معیشت سے بھی بڑی ہو چکی ہے۔ اس کالی معیشت سے ملک کا 70 فیصد روزگار وابستہ ہے اور یہ خدمات، ریئل سٹیٹ اور معیشت کے دیگر بہت سے شعبوں کو چلاتی ہے۔ ریاست پہلے سے سماجی فلاح اور انسانی ترقی کے شعبوں سے 1980ء کی دہائی سے دستبردار ہو رہی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ریاستی ملکیت کے حامل صحت اور تعلیم جیسے سماجی انفراسٹرکچر اور فلاحی اداروں کی نجکاری کرتے ہوئے منافع خوری کی جائے۔ بڑھتے ہوئے خسارے اور ریاست کی کم ہوتی ہوئی آمدنی نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا کہ ریاست ان بنیادی انسانی ضرورت کی فراہمی سے ہی دستبردار ہو جائے۔ یہ پاکستانی سرمایہ داری کی بوسیدہ حالت کی غمازی کرتی ہے۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام تر بڑی سیاسی پارٹیوں میں ان ایشوز پر مشکل سے ہی کوئی فرق ہو گا۔ 'اپوزیشن‘ پارٹیاں شدت سے اس رپورٹ کو نواز شریف کے خلاف استعمال کریں گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشی ترقی کے لیے ان کے پاس بھی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، نجکاری اور ڈی ریگولیشن کے پروگرام ہی ہیں جس کے تحت مستقل ملازمتوں، پنشن اور دوسری حاصلات کی جگہ کنٹریکٹ ملازمتیں لیں گی‘ جہاں نہ محفوظ روزگار ہو گا اور نہ ہی دوسری حاصلات۔ مغربی یا مشرقی سامراجی سرمایہ کاری کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں۔ کنٹریکٹ لیبر اور کیپیٹل انٹینسو سرمایہ کاری سے بہت کم روزگار پیدا ہو گا‘ جو پاکستان کے محنت کشوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نسبتاً بلند تر شرح نمو کے دور میں بھی سماجی ترقی اور مزدوروں کے حالاتِ زندگی میں بہتری اور غربت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس حالات زندگی میں ابتری اور مفلسی کے مزید بڑھنے حقائق موجود ہیں۔
یہ میکرو اکنامک ابتری مائیکرو اکانومی کے تناظر میں اور زیادہ شدید ہے۔ شرح خواندگی حقیقتاً گر گئی ہے اور صحت کی سہولیات اور سائنسی علاج تک رسائی مزید کم ہو گئی ہے۔ موجودہ سماجی معاشی نظام میں یہ عمل ناقابل واپسی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے بورژوا سیاست دان 'نظام‘ کی تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ہیں‘ تاہم نظام سے ان کی مراد موجودہ نظام میں صرف حکومت یا حکومت کا طریقہ کار ہے۔ لیکن پاکستان کی سرمایہ دارانہ معیشت پر ایک سرسری نظر واضح کر دیتی کہ یہ نظام انسانی ضروریات کی تکمیل، سماجی ترقی اور آبادی کی وسیع اکثریت کو خوشحالی فراہم کرنے کا اہل نہیں ہے۔ صرف موجودہ سماجی و معاشی نظام کو تبدیل کرکے ہی سماج کو ان ذلتوں اور محرومیوں سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔ کارل مارکس نے بہت پہلے کہا تھا، ''فلسفیوں نے صرف دنیا کی تشریح کی ہے مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے۔‘‘

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں