کئی صدیوں سے عوام کے ذہنوں کو حب الوطنی کے پُر فریب جھوٹے تعصبات کے ذریعے اتنے منظم انداز میں مسخ کیا گیا ہے کہ خود محکوموں کی اکثریت '' عام حالات‘‘ میں حاکموں کی دولت اور ریاست کی محافظ بنی رہتی ہے۔ ایک بہت بڑی اکثریت‘ مٹھی بھر اقلیت کے مفادات کے تحفظ میں لگی ہوتی ہے۔ حکمران طبقہ عوام کی وسیع اکثریت کو اس نہج تک لانے کے لیے کئی قسم کے تعصبات کا استعمال کرتا ہے۔ وہ کہیں محنت کشوں کو قوم کے تعصب کے نام پر تو کہیں رنگ و نسل اور ذات و برادری کی بنیادوں پر تقسیم کرتا ہے۔ اس واردات کے محرکات میں جہاں حکمرانوں کے پاس کئی صدیوں کا وقت ہے وہاں عوام کی ذہن سازی اور تربیت کے کئی ذرائع پر ان کا کنٹرول بھی ہے۔ طبقاتی تفریق کو نظروں سے اوجھل اور طبقاتی شعور کو پسماندہ رکھنا حکمرانوں کا واحد مقصد ہوتا ہے جس کے ذریعے جہاں وہ اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں وہاں اپنی حاکمیت کو بھی طول دیتے ہیں۔ اس سیارے پر موجود تمام ہی ریاستوں کے حکمرانوں کا یہ مشترکہ مقصد ہے‘ جس میں وہ کئی صدیوں سے نہ صرف کامیاب رہے ہیں‘ بلکہ ایک وسیع اکثریت کو اپنے کنٹرول میں بھی کیے ہوئے ہیں۔ ماسوائے چند تاریخی استثنیات کے۔
پاکستانی ریاست بھی ویسی ہی ہے جیسی دنیا کی کئی اور ریاستیں ہیں، جو سماجی ارتقا میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ اتفاق سے ایسی تمام ریاستیں کم و بیش ایک ہی جیسے سیاسی و معاشی کردار کی حامل ہیں۔ کرپشن، بدعنوانی، سامراجی گماشتگی اور پیروی ان تمام ریاستوں کے حکمرانوں کی بنیادی خصلتیں ہیں۔ یہ ریاستیں تاریخ کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے، کوشش کے باوجود، ایک جدید ریاست کے طور پر پنپنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ دنیا بھر میں حکمران طبقہ اس ناکامی کا جواز بد انتظامی اور کرپشن جیسے عوامل کو بنا کر ریاست کی تاریخی نا اہلی پر پردہ ڈالتا رہتا ہے۔ آج کے پاکستان کو اگر دیکھیں تو پچھلے ستر سال کی تاریخ حکمران طبقے کی طرف سے عوام کو خوشحالی اور ترقی کے وعدوں اور دعووں سے بھری پڑی ہے۔ لگتا ہے تاریخ ہر وقت اپنے آپ کو ایک المیے کے طور پر دہرا رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مختلف سیاسی اور انتظامی طریقہ ہائے کار اپنانے کے باوجود بھی یہ سماج آگے جانے کی بجائے پیچھے کی جانب گامزن ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل ماہرین اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا حل تجویز کرتے رہتے ہیں۔ ''اخلاقیات‘‘ کے علم بردار انسانوں کی اخلاقی اور روحانی بے راہ روی کو اس کا سبب بناتے ہیں تو موضوعیت پرست اس کو انفرادی اور اجتماعی بے حسی کا نتیجہ گردانتے ہیں۔ ان سب میں گہرا اور زہریلا وار نام نہاد جمہوریت پسند کرتے ہیں‘ جو جمہوریت کو ایک نظام کے طور پر لوگوں کی سوچوں اور احساسات پر مسلط کر کے اس بے رحم سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے گھنائونے چہرے پر جمہوریت کا حسین نقاب چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ اس نظام کے ہر گھائو کو جمہوریت کی عدم موجودگی کا جواز بنا کر تقدیس کا لبادہ پہناتے ہیں۔ ایسے خواتین و حضرات سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں کا بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مطالعہ کر کے اپنے اپنے ذہنوں میں ایک تجرید مرتب کرتے ہیں جس میں سب اچھا ہوتا ہے۔ پھر اس تجرید کے عشق میں مبتلا ہو کر بے تنخواہ اس کی عظمت کے گیت گاتے رہتے ہیں۔ سرمایہ داری کو ایسے ذہنی غلاموں کی بڑی کھیپ عمومی طور پر درمیانے طبقے کی پرتوں سے میسر آتی ہے۔ یہ سرمایہ داروں کی حقیقی طاقت اور اثاثہ ہیں‘ جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے تاریخ کی کتابوں اور یونیورسٹی کے کلاس رومز تک جانا پڑے گا۔
بورژوا ماہرینِ معاشیات و سماجیات اس ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر جن مسائل اور وجوہات کی نشاندہی کرتے ہیں، در اصل وہی اس معاشی نظام کے بحران کی علامات ہیں نہ کہ وجوہات۔ غیر ہنر مند افرادی قوت، سیاسی و ریاستی اداروں کی کمزوری اور نااہلی، ذرائع پیداوار کی ترقی جیسے عوامل ہی ان ناگزیر علامات میں سے ہیں‘ جو ایک صحت مند اور پنپتے ہوئے بنیادی معاشی نظام کی عدم موجودگی سے برآمد ہوتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں فوجی و سویلین قیادت کے اختلافات اور تضادات محض موضوعی نوعیت کے نہیں ہیں‘ بلکہ ان کی جڑیں ان ریاستوں کی تنظیم میں موجود ہیں‘ جو ان کے قیام کے دن سے چلی آ رہی ہیں۔ اور کبھی کبھی یہ تضادات پھٹ کر پوری ریاستی مشینری کو ہی بحران میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
دیگر نوآبادیاتی ممالک کی طرح ہم بھی اب تک مختلف ٹھوس ریاستی اور سیاسی اداروں کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔ یہاں سامراج کی معاشی جارحیت کے دبائو تلے قومی بورژوازی نہیں پنپ سکی جس کی وجہ سے ریاست بھاری سرمائے کے حصول میں ناکام رہی جو سماج کی ترقی اور ریاستی اداروں کی تعمیر و تشکیل کے لیے ناگزیر تھا۔ نتیجتاً یہاں کی بورژوازی کا کردار سامراج کے گماشتہ کے طور پر پروان چڑھا۔ دوسری طرف آبادی کی وسیع اکثریت کے لیے ضروریاتِ زندگی کی عدم فراہمی اور منافعوں کی شرح میں کمی وہ بنیادی وجوہات بنیں‘ جس سے ٹیکس چوری، صنعتی پیمانے پر کرپشن اور دولت میں اضافے کے لیے بعض اداروں کی ملی بھگت سے متوازی طور پر کالی معیشت کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ جبکہ اب اس متوازی معیشت کا حجم حقیقی معیشت کے حجم کے تقریباً برابر ہے، اور اس کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی حکومتیں ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں متعارف کرواتی ہیں جو کہ کالی معیشت کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکامی کا اعتراف ہے‘ اور بعض طبقوں کے اس کالی معیشت میں ملوث ہونے کی وجہ سے مختلف ریاستی دھڑوں کے تضادات بھی بنتے ابھرتے ہیں‘ جو ہمیں پھر ریاستی بحران کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یہاں بورژوازی کے بھی مختلف دھڑے ہیں جو معیشت کی مختلف شکلوں اور طرزوں کی بنیاد پر بنے ہیں‘ اور انہی دھڑوں کے مختلف سیاسی نمائندے ہیں‘ جن کے اختلافات اور تضادات کا ایسا گھن چکر بنتا ہے‘ جو محنت کشوں اور وسیع عوامی اکثریت کو برباد کر رہا ہے۔
جن ہمہ جہت تضادات کی یہ ریاستیں شکار ہیں ایسا ممکن نہیں کہ ان سے عمومی ارتقائی عمل اور ''جمہوری عمل‘‘ کے تسلسل کے ذریعے نکلا جا سکے۔ انہی تضادات کی وجہ سے نہ سرمایہ دارنہ طرز معیشت ارتقا پذیر ہو سکتی ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ جمہوری عمل کا تسلسل ممکن ہے۔ ابھی تک حکمران طبقہ اس ملک میں سیاست کر رہا ہے اور محنت کش طبقہ اس سے لا تعلق ہے۔ ایسے طویل ادوار تاریخ میں آتے ہیں جب محنت کش عوام براہ راست سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کر رہے ہوتے... پھر وقت بدلتا ہے، عوام اپنے تجربات اور زندگی سے سبق سیکھتے ہوئے نتائج اخذ کرتے ہیں کہ سیاسی عمل میں براہ راست مداخلت ہی ان کی بقا کا واحد ذریعہ ہے اور پھر ٹراٹسکی کے بقول وہ اپنی تقدیر اور زندگی کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں‘ اور پُر زور طور پر سیاسی عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ یہی انقلابات ہوتے ہیں جن سے پھر تاریخ اور معاشرے ایک زبردست چھلانگ یا جست کے ذریعے آگے بڑھتے ہیں اور تاریخ اور سماج کو کبھی نہ دیکھی گئی بلندیوں پر لے جا کر صدیوں کے سفر کو لمحوں میں طے کرتے ہوئے اس نہج پر لے جاتے ہیں جہاں سے نئے زمانے اور نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔