"DLK" (space) message & send to 7575

انقلاب روس کی تاریخ

لیون ٹراٹسکی کی کتاب 'انقلابِ روس کی تاریخ‘ کسی مورخ کی لکھی ہوئی تاریخی داستان نہیں ہے۔ یہ کسی تاریخی عہد، انقلاب یا جنگ کی عمومی کہانی نہیں ہے۔ یہ کتاب منفرد اور ممتاز اس لئے ہے کہ اس میں انقلابِ روس کے حالات و واقعات کا ایک سائنسی فلسفے کی بنیاد پر تجزیہ موجود ہے۔ یہ عظیم انقلاب، اس کے واقعات، اس کا اتار چڑھاؤ، اس کی کبھی تیزی تو کبھی سست روی، محنت کش طبقے کی فتح... یہ سب کچھ کیونکر ہوا اور اس کے برعکس کیوں نہ ہوا، اِسی سوال کی وضاحت 'انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں کی گئی ہے۔ مصنف نے مارکسی فلسفے اور جدلیاتی مادیت کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے سماجی ارتقا، معاشرتی عوامل کے آفاقی قوانین اور تاریخی بحرانوں سے پھوٹنے والے انقلابات کے گہرے سائنسی جائزے اور پرکھ کو تحریر میں سمیٹا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر اِس تحریر میں روس اور اس کے تاریخی طرزِ ارتقا سے مشابہت رکھنے والے معاشروں کی اقتصادی، ثقافتی، تجارتی و سماجی تشکیل اور ان کے تاریخی پس منظر اور مضمرات کی وضاحت انتہائی وسعت اور بلاغت سے کی گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف لیون ٹراٹسکی نہ تو کوئی پیشہ ور مورخ تھے اور نہ ہی 'اکیڈیمیا‘ سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ اس کتاب کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف اسی انقلاب کے قائدین میں شامل تھا‘ جس انقلاب کی تاریخ پر مبنی یہ کتاب ہے۔ ایسے میں ٹراٹسکی نے غیرجانبداری کا ڈھونگ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو اس عظیم تاریخی ڈرامے کے ایک کردار اور اس کے مشاہد کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ اسی طور سے اس تاریخی طبقاتی معرکے کے حالات و واقعات کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ لیکن پیش کردہ شواہد اور حقائق کو تاریخ کی سائنس کے کسی بھی بنیادی معیار پر پرکھا جا سکتا ہے۔ ٹراٹسکی حقائق کو مسخ نہیں کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ دانشور، ادب کے ماہرین اور مورخین بھی اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہیں۔
ٹراٹسکی نے سب سے پہلے روس کے سماجی اور معاشی ارتقا کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے۔ پھر اِن مادی حقائق کو مارکسی نظریات کی بنیاد پر پرکھ کر اْس انقلابی لائحہ عمل سے منسلک کیا ہے‘ جس نے بالشویکوں کی قیادت میں روس کے محنت کش عوام کو ایک سوشلسٹ فتح سے سرفراز کیا۔ اس عمل میں وہ سماجی تضادات ہمارے سامنے آتے ہیں‘ جو اْس وقت ایک ایسی نہج پر پہنچ چکے تھے کہ صرف ایک سوشلسٹ تبدیلی سے ہی روس میں ترقی اور نجات کے سفر کا آغاز ہو سکتا تھا۔ ٹراٹسکی نے روس کے مادی حالات کو جدلیاتی لڑی میں پرویا ہے اس سے دو بنیادی اسباق اور حقائق اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ روس جیسی نیم نوآبادیاتی اور نیم سامراجی زار شاہی سلطنت کی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کے گل سڑ جانے کے باوجود، وہاں سامراجی تسلط سے پیوند کردہ سرمایہ دار طبقہ یورپ کے قومی جمہوری انقلاب کی طرز پر بادشاہت اور جاگیرداری کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے جدید قومی ریاست کی بنیاد رکھنے سے قاصر تھا۔ ٹراٹسکی نے مقتدر شخصیات کے کردار سے لے کر حکمران طبقات کے رویوں تک، اْن کے تاریخی استرداد اور نااہلی کو خوب واضح کیا ہے۔ اْس نے ثابت کیا ہے کہ جب کوئی نظام تاریخی طور پر متروک ہو جاتا ہے تو اس کے بالا دست طبقات کا کردار کتنا رجعتی اور غلیظ ہو جاتا ہے۔ اسی کیفیت سے ٹراٹسکی نے مشترک اور ناہموار طرزِ ارتقا کا جو نظریہ استوار کیا ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روس میں ترقی کے لئے اس معاشرے کو نہ تو یورپ کی ترقی کے مراحل سے گزرنے کی ضرورت تھی‘ اور نہ ہی وہاں کی سرمایہ داری میں یورپ کی طرز کی سماجی اور اقتصادی اصلاحات برپا کرنے کی اہلیت موجود تھی۔ اس تاریخی و سماجی پس منظر سے ٹراٹسکی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ زار شاہی روس جیسے تاخیر زدہ معاشروں کو آگے بڑھنے کے لئے یورپ یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرنے کی بجائے کئی تاریخی مراحل کو پھلانگنا ہو گا۔ روس کے لئے 1917ء میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی بجائے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپ کی پیروی کا مطلب بربادی، تاریک رجعت اور ممکنہ طور پر زار شاہی سے زیادہ جابر حاکمیت تھا۔ آخری تجزیئے میں یہی انقلابِ روس کی نظریاتی بنیاد بھی تھی۔ لینن نے ٹراٹسکی سے 14 سال تک چلنے والی نظریاتی بحث کے بعد اپنے شہرہء آفاق ''اپریل تھیسس‘‘ میں اْس کے ''انقلابِ مسلسل‘‘ کے اِسی نظرئیے کو تسلیم کیا اور انہی بنیادوں پر 1917ء میں بالشویک پارٹی کو نظریاتی طور پر از سر نو مسلح کیا۔ سادہ لفظوں میں اس کے معنی یہ تھے کہ روس جیسے معاشروں کے سماجی ارتقا کو آگے بڑھانے اور جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے انقلاب کا کردار ''قومی جمہوری‘‘ نہیں سوشلسٹ ہونا لازم تھا۔
آج کے پاکستانی معاشرے اور قبل از انقلاب کے روس میں گہری مشابہتیں موجود ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیشتر سابقہ نوآبادیاتی اور نام نہاد ترقی پذیر ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ اگر ہم اْس وقت روس میں مذہبی تسلط کی صورتحال کا جائزہ لیں، وہاں کی ریاستی مشینری اور سرمایہ دار طبقات کے کردار کا جائزہ لیں، عمومی بدحالی، پسماندگی اور جاگیردارانہ جبر کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا پاکستان کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک اور کلیدی مشابہت زار شاہی روس اور آج کے پاکستان میں موجود قومی مسئلے اور حاکم قوم کے شائونزم میں ملے گی۔ 
' انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں ٹراٹسکی نے کافی گہرائی اور وسعت سے محنت کش عوام کی سوچ اور شعور میں آنے والی تیز تبدیلیوں کے عمل کی وضاحت کی ہے۔ جدلیاتی مادیت کے سائنسی فلسفے پر عبور کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔ ٹراٹسکی نے مختلف ادوار میں بالعموم عوام اور بالخصوص مزدور طبقے کے شعور میں آنے والی تبدیلیوں کو خصوصی طور پر پرکھا ہے۔ ''معمول‘‘ کے ادوار میں لوگوں کی سوچ بالعموم بالا دست طبقات کے ریت رواج، نظریات و افکار اور طرز زندگی کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے۔ لیکن سطح کے نیچے تبدیلیاں مسلسل جاری ہوتی ہیں۔ جب معمول ٹوٹتے ہیں اور عہد بدلتے ہیں، سماجی نفسیات میں برق رفتار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو شعور اور سوچ کے انداز یکسر بدل جاتے ہیں۔ ماضی کی توہمات، عقائد اور رسم و رواج یوں چھٹ جاتے ہیں جیسے سماج کسی گہری نیند سے اچانک بیدار ہو گیا ہو۔ محنت کش طبقات ہر چیز کو ایک نئے پہلو سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انفرادیت کی جگہ اجتماعیت عود کر آتی ہے۔ بے حسی کی جگہ احساس جاگ اٹھتا ہے۔ حکمرانوں کی پیروی، اْن کا رعب اور عزت و احترام راتوں رات اْن سے نفرت اور حقارت میں بدل جاتا ہے۔ محنت کشوں میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ طویل عرصے سے چھائی قدامت پرستی کی جگہ مستقبل کی امنگیں اور انقلابی نظریات لے لیتے ہیں۔ مایوسی اور بد گمانی کی جگہ رجائیت اور امید جنم لیتی ہے۔ یاس اور پژمردگی کی جگہ نیا حوصلہ، نئی جرات پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہی وہ انسان ہوتے ہیں جو کل تک اپنے مالکوں، بادشاہوں، سیاسی حکمرانوں، جرنیلوں، بڑے بڑے ججوں اور ریاستی آقاؤں کو دیوتا مان رہے ہوتے تھے‘ لیکن شعور کروٹ لیتا ہے تو عزت و مرتبے کے معیار ہی بدل جاتے ہیں۔ قومی، فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور برادریوں کی تقسیم اور پہچان کو اْن کا شعور جھٹک کر مسترد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچاننے لگتے ہیں۔ اپنے طبقے سے ہمدردی اور یکجہتی کے جذبات اْمڈ آتے ہیں۔ حکمران طبقات اور اْن کے نظام سے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ کیفیت قبل از انقلاب کے حالات میں محنت کش عوام کی رگوں اور شریانوں میں پنپتی رہتی ہے۔ ایسے میں کوئی ایک معمولی یا غیر معمولی واقعہ بھی دھماکہ خیز انداز سے انقلابی تحریک کا نقطہء آغاز بن سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں