"DLK" (space) message & send to 7575

قاتل راج

پولیس مقابلوں اور ''ماورائے عدالت‘‘ قتل کرنے کی وارداتوں کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ انگریز کے دور میں بھی محکوم پولیس اہلکاروں سے سامراجیوں نے بڑے بڑے ظلم کروائے۔ 23 مارچ 1931 ء کو عدالتی لحاظ سے قتل کیے جانے والے انقلابی نوجوان بھگت سنگھ کی لاش اس کے لواحقین کو دینے کی بجائے ایک ماورائے عدالت واردات میں کسی خفیہ مقام پر جلاکر دریائے ستلج میں بہا دی گئی تھی۔1947ء کے بعد حکمرانوں کے رنگ اور نسلیں تو بدلیں لیکن ان کے کردار اور حرکات‘ وہی رہیں۔ اداروں کے ڈھانچوں اور انتظامیہ کے طریقہ کار سے لے کر قانون اور عدل کی بنیادی شقیں اور ان پر عمل درآمد کے انداز آج بھی وہی ہیں ۔ 70 سال بعدبھی برصغیر کے عام انسانوں کو ریاستی اداروں کے جبر اور اذیت کا سامناطبقاتی نا انصافی کی بنیاد پرکرنا پڑتاہے۔ ا س گھائل سماج میں معاشرے کے عام لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے زخم آج بھی دکھ رہے ہیں۔ سماجی مزاحمت کے کسی حد تک ماند پڑ جانے کے باوجود اس میں رمق ابھی بھی ہے۔ مختلف دردناک واقعات کے بعد چھوٹے مظاہروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سہی یہ مزاحمت ابھر کر اپنے وجود اور صلاحیت کے جھلک دکھلاتی ہے۔ اسی مزاحمت کے دبائو کے تحت جب حکمرانوں کی چند ایسی سفاکانہ وارداتیں بے نقاب ہوتی ہیں تو ان کا وہی برطانوی سامراجیوں والا وحشی اور ظالمانہ کردار سامنے آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ
جب ایک ریاست پر دولت مند حکمران جرائم سے حاصل کردہ سرمائے کو پھیلانے اور قبضوں کے ذریعے جائیدادیں بڑھانے کے لئے براجمان ہوتے ہیں تووہ ریاست کو انہی کارروائیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے حریفوں کو مروانے اور غریبوں سے ان کے گھروندے اور زمینیں چھینے کے لئے ریاستی تشدد کو استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے میں بعض اہلکار اور ادارے حکمرانوں کے لئے ایسے جرائم کرتے ہیں تو خود بھی اس لوٹ مار میںملوث ہوجاتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو اس جارحانہ لوٹ مار کے عمل میں خود ان حکمرانوں سے زیادہ دولت مند ہو جاتے ہیں۔ پولیس کے ادارے میں یہی صورتحال ہے۔ پولیس کے بعض اعلیٰ افسران کچھ سیاسی حکمرانوں سے زیادہ دولت مند بن جاتے ہیں اور یہیں سے ایک نئی چپقلش سامنے آتی ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے پیچھے ایسے اہلکاروں کی مختلف ''ضروریات ‘‘ اور وجوہات ہوتی ہیں۔ جائیداد کے جھگڑوں سے لے کر مزید قبضوں کے حصول کے تنازعات‘ خونیں تصادم میں بدل جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے حکمران طبقات کے کاروبار کا وسیع تر حصہ غیر قانونی جرائم پر مبنی ہوتا ہے‘ اس لئے اس کے فروغ کے لئے ان کو طاقت، اقتدار اور ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی شدید ضرورت پیش آتی ہے۔ معیشت کا 73 فیصد متوازی یا کالے دھن پر مبنی ہونا یہاں کے سرمائے اور سرمایہ داروں کے اصل کردار کی سب سے بڑی گواہی ہے ۔ ان وارداتوں میں ملوث اعلیٰ پولیس اہلکارجرم کے خاتمے اورمجرم کو پکڑنے والی طاقت کی بجائے خود مجرم بن جاتے ہیں۔ جہاں وہ چند وارداتیں اپنی سیاسی پشت پناہی کرنے والے اہلِ اقتدار لیڈروں کے لئے کرتے ہیں وہاں بہت سے مجرمانہ اقدامات وہ اپنی دولت اور طاقت میں اضافے کے لئے بھی مسلسل کررہے ہوتے ہیں۔
نقیب اللہ محسود اوراسی طرح کے دیگر پولیس مقابلوں میں ہونے والے حالیہ قتل نے ایک مرتبہ پھر سیاسی حکمرانوں اورر یاستی اہلکاروں کے اس باطل تعلق اور طریقہ واردات کو نمایاں کر دیا ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہر ماہ تسلسل سے جاری رہتے ہیں۔ اس نظام کے بحرانی کردار اور اقتصادی، سماجی اور ریاستی ڈھانچوں کی متروکیت کی وجہ سے یہ سلسلہ رک بھی نہیں سکتا۔ ایس ایس پی رائو انوار کو موردِ الزام ٹھہرایا جانا ، اس کی فرار کی کوشش اور پھر دھڑلے سے گرفتاری رد کرتے ہوئے روپوشی میں چلے جانا ‘ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے اندرونی دھڑوں میں تنازعات اور ٹکرائو کی شدت کی غمازی کرتا ہے۔ رائو انوار کے بارے میں اب یہ انکشاف ہو رہے ہیں کہ وہ چند ہی سالوں میں ارب پتی بن چکا ہے۔ راؤ کی وارداتوں میں جہاں اس کی پشت پناہی کرنے والے سیاسی ان داتاؤں کے حریفوں کے درجنوں مبینہ ماورائے عدالت قتل سامنے آرہے ہیںوہاںاس کے ریت اور بجری کے کاروبار سے لے کرانہی سیاسی آقائوں کے پراپرٹی سپانسروں کے لئے غریبوں کے گھروندے بلڈوزروں سے مسمار کرکے ہزاروں ایکڑزمین پُر تشدد وارداتوں سے چھیننے کے جرائم بھی اب بے نقاب ہورہے ہیں۔
رحمان ڈکیت سے لے کر عزیر بلوچ تک بہت سے پیشہ ور قاتلوں اور مجرموں کے سیاسی آقائوں سے گہرے رشتے پہلے ہی سامنے آچکے ہیں۔ لیکن جب ایسے قاتل اورڈاکو پکڑے جاتے ہیں تو پھر ان حکمرانوں کو اپنے کالے کرتوتوں کے بے نقاب ہونے اور پکڑے جانے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ اس لئے پھر انہی چہیتے ڈکیتوں اور خونیوں کو وہ ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رحمان ڈکیت پولیس مقابلے میں مار ا جاتا ہے اور عزیر بلوچ سے کوئی ایسی ڈیل ہو جاتی ہے جو اس کی زبان بندی کردیتی ہے۔ مقتدر اداروں کے ساتھ ان سیاسی گاڈ فادرز کی کسی ڈیل کی ہی بو آتی ہے کیونکہ عزیر بلوچ کافی بھاری اعدادوشمار اور جرائم کا اعتراف کرچکا تھا۔ اس سب کے باوجود اس کیس کو دبانا کسی بڑی سرکار سے سیاسی سودے بازی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رائو انوار کے فرار اور روپوشی کی دال میں بھی کچھ کالا ہے۔ پہلے تو اسلام آباد ائیر پورٹ پر اس کو ایف آئی اے کی طرف سے روکے جانے کا سارا واقعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتاہے۔ اگر رائو انوار کے پاس سارے کاغذات موجود تھے تو پھر اسے روکا کیوں گیا؟ جبکہ اُس وقت تک راؤکا نام ای سی ایل میںنہ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے ۔ اور اگر کسی قانونی وجہ سے اس کو روکاگیا تو پھر اسی وجہ کی بنا پر اسے گرفتارکرنے کی بجائے چھوڑ کیوں دیا گیا؟
دولت مند حکمرانوں کے ریاستی اداروں میں دور دور تک تانے بانے اور خریدی ہوئی وفاداریاں ہی اس واقعہ کوواضح کرسکتی ہیں۔ لیکن اگر حکمرانوں کا کوئی پیادہ یا پیادی کسی جرم مثلاً کیش ڈالروں کی سمگلنگ میں پکڑی بھی جائے تو اس مہنگے انصاف کے مہنگے ترین وکیل ان مالیاتی ان داتائوں کی چوکھٹ پر گھٹنے اور سر ٹیکے موجود ہوتے ہیں۔ دولت کی فراوانی سے مقدمے لمبے ہوتے جاتے ہیں اور ان ملزمان کو آخر کار عبوری ضمانتیں مل ہی جاتی ہیں۔ پھر دوبئی تو صرف دوگھنٹے کی دوری پر ہے جہاں بڑے مجرم عالیشان محلات رکھتے ہیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر پورا نظام کس قدر گل سڑ چکا ہے۔ دولت والوں کے لئے یہ تحفظ اور محنت کرنے والوں کے لئے ذلتوں کا باعث بن رہاہے۔ مزدور روزگار ڈھونڈنے کراچی آتے ہیں اور ان کو خطرناک مجرموں کے نام پر پولیس مقابلوں میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ سنگین جرائم میں مطلوب مجرم بھاری رقوم دے کر اپنی جگہ اپنے ہم ناموں کو قتل کروادیتے ہیں۔ اس معاشرے میں جہاں ایک فیصد 70 فیصد عوام سے زیادہ دولت رکھتے ہوں اور امیر سے امیر تر ہورہے ہوں وہاں عام لوگوں کو یہ نظام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید دھکیل رہا ہے۔ ''جائز‘‘ طریقوں سے دولت مند ہونا اب ا س نظام میںممکن نہیں رہا۔ اس مجرمانہ دولت کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے اسی دولت سے طاقت اوراقتدارکو خریدا جا سکتا ہے۔ یہی آج کی سیاست کا کردار ہے اور یہی ان سیاسی آقائوں اور ریاست کے کلیدی پرزوں کا باہمی رشتہ ہے۔ اس نظام میں سطحی تبدیلیوں اور اصلاحات سے ٹھیک ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ان گلے سڑے اداروں کو تبدیل کرکے عام انسانوں کی فلاح کے لئے ہماری تقدیروں کا کاروبار کرنے والی اس مایا کی حاکمیت کا خاتمہ ضروری ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں