"DLK" (space) message & send to 7575

سستا روپیہ‘ مہنگا جینا!

ا س ہفتے کے آغاز پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پچھلی کئی دہائیوں کی سب سے بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ جب کرنسی ایکس چینج کی منڈیاں کھلیں تو ڈالر 121 روپے سے بڑھ کر 128.70 روپے ہو گیا۔ یعنی فوری طور پر روپے قدر میں 7.70 روپے کی کمی واقع ہوئی‘ جس کے اثرات کاروباری طبقات‘ تاجر خصوصاً برآمدات سے تعلق رکھنے والی صنعتوں کے مالکان اور سٹاک ایکس چینج میں تیزی سے سامنے آئے۔ سٹیٹ بینک نے کرنسی کی اس گراوٹ کے بحران کو منڈی کی ہیرا پھیری قرار دے دیا ہے۔ اس ادارے کے حکام کا یہ کہنا درست ہے کہ منڈی پر ان کا کوئی اختیار نہیں‘ اور منڈی کے اپنے معیار اور منافع خوری کی ترجیحات اور عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سرمایہ دارانہ معیشت میں اس کے بحران اور کنگال ہونے کی غمازی کرتی ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا حجم 90 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور پاکستان کی کُل مجموعی داخلی پیداوار اور اثاثوں کی کل قدر کے تقریباً 84 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ حالیہ سیاسی ہلڑ بازی میں قرضوں کے اس تیز ترین اضافے کو غیر سنجیدگی اور محض حریفوں کی حکومت پر الزام تراشی تک محدود کر دیا گیا ہے‘ اور اس کو پرکھنے اور اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
قرضوں میں اتنے شدید ترین اضافے کی سب سے بڑی وجہ سی پیک کے پراجیکٹوں کی تعمیر ہے۔ اس منصوبے پر ریاستی اداروں سے لے کر تمام سیاسی پارٹیوں تک‘ سب نہ صرف اس کارنامے کو اپنے کھاتوں میں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اس پر تنقید کرنا بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان منصوبوں کے لیے درکار میٹریل‘ ٹیکنیکل آلات اور اس کے ساتھ ساتھ ہنر یافتہ لیبر اور منیجر بھی چین سے منگوائے جا رہے ہیں‘ جن کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ چین نے 62 ارب ڈالر ''امداد‘‘ کی قسطیں تو ادا کرنی شروع کر دی ہیں‘ لیکن ان قسطوں اور پوری رقم پر جو سود اور آلات کی خریداری پر جو رقوم خرچ ہو رہی ہیں وہ براہِ راست برآمدات اور قرضوں کے حجم میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ ان خساروں کی وجہ سے روپے پر بوجھ بڑھنا ناگزیر تھا۔ جب بھی کوئی بیرونی سرمایہ کار کسی دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس نظامِ زر اور سامراجی عمل میں نہ تو یہ ادھار ہوتی ہے اور نہ ہی وہ سود اور قرضوں کی ادائیگی کی قسطوں میںکوئی کوتاہی آنے دیتے ہیں۔ چاہے مغربی سامراجیوں کی سرمایہ کاری ہو یا مشرقی سرمایہ کاری‘ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ''اصول‘‘ یہی رہتے ہیں۔ چین کوئی پہلا ملک نہیں‘ جس نے اپنے ہی قرضے دے کر پاکستان میں اپنی ہی کمپنیوں کو سی پیک جیسے منصوبوں کے ٹھیکے دیئے ہوں۔ چین کے اندر یا باہر‘ چین کی بے دریغ ریاستی سرمایہ کاری بنیادی طور پر شرح نمو میں گراوٹ اور جمود سے پیدا ہونے والے بحران کی شدت کی غماز ہے۔ اس کا بنیادی مقصد چین میں ٹھہری ہوئی ترقی کے شرح کو کک سٹارٹ کرنا ہے۔ اس پیسے اور منافع خوری کے کاروبار اور تجارت میں دوستیاں نہیں چلا کرتیں۔ نہ ہی دشمنیاں اس میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام انتہائی سفاکانہ اور بے بس نظام ہے جس میں حساب کتاب اور پیسے کے لین دین میں ایک پائی کی بھی چھوٹ نہیں ملا کرتی۔
زرمبادلہ کے ذخائر پر دوسرا بوجھ مغربی سامراجیوں‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ادائیگی ہے جو یہ ملک اپنے معاشی حجم سے ہی ادا کرتا رہا ہے‘ لیکن ادائیگیوں کے بعد بھی وہ بڑھتے گئے ہیں۔ جدید سامراجی حکمرانوں اور مالیاتی اداروں کے کردار قدیم ہندوستان میں بنیوں‘ ساہو کاروں اور سود خوروں سے مختلف نہیں ہیں۔ شاید یہ جدید دیوہیکل بنیے ان سے بھی زیادہ سفاک ہیں۔ کسی حکمران کی جرات نہیں کہ ان قرضوں اور سود کی ادائیگی کے عمل میں کوئی رخنہ ڈال سکے۔ سرمایہ دارانہ حکومتیں (چاہے وہ فوجی ہوں یا سویلین) اس کو اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہیں لیکن پھر یہ پیسے جہاں ''ترقیاتی‘‘ ‘ ''تعمیراتی‘‘ اور ''صنعتی‘‘ منصوبوں پر صرف ہوئے ہیں وہاں پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا اور پہلا حصہ پرانے قرضوں اور ان پر مسلسل چڑھتے ہوئے سود کی ادائیگی کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا حصہ دفاع کے نام پر خرچ ہوتا ہے‘ جس کا سرکاری اعداد و شمار میں کم ہی ذکر ہوتا ہے۔ ریاستی اخراجات کی تیسری سب سے بڑی مقدار ریاستی منصوبوں پر صرف ہوتی ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اداروں اور کئی دوسرے دستوں کی داخلی ''دفاع‘‘ کی کارروائیوں پر صرف ہو جاتا ہے۔ پھر سیاسی اور حکومتی اداروں‘ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے اپنے بے بہا اخراجات ہیں۔ پارلیمان کے ایوانوں میں تقریباً ہر سال ممبران کی ''تنخواہوں‘‘ میں اچھے خاصے اضافوں کے بل پر کبھی کوئی اختلافی ووٹ نہیں آتا۔ پھر دو ایسے خفیہ اخراجات ہیں جن کا بجٹ وزارتِ خزانہ اور سٹیٹ بینک کی رپورٹوں میں ایسے چھپا دیا جاتا ہے یا ایسے ''گھرل مرل‘‘ کر دیا جاتا ہے کہ یہ عوام کے علم اور ان کی پہنچ سے باہر رہتے ہیں۔ ان میں سرکاری اداروں سمیت بینکوں سے معاف کروائے گئے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے وہ قرضہ جات شامل ہیں جن کا حجم کھربوں میں ہو چکا ہے۔ اگر کسی شعبے کو ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر وہ ملک کی 90 فیصد آبادی سے وابستہ صحت و تعلیم کے شعبے ہیں‘ جن کے لیے 0.91 فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ دوسرے ''فلاحی‘‘ منصوبوں کی رقم کوئی حکومت کبھی پوری خرچ ہی نہیں کر پاتی کیونکہ دوسرے ''ضروری‘‘ شعبے پہلے ہی اس پر ڈاکہ ڈال چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ تو بہت واضح ہے کہ تمام اخراجات بالا دست طبقات اور ان کے اداروں پر ہوتے ہیں‘ جبکہ سارا بوجھ‘ جو 70 سال سے بڑھتا ہی جا رہا ہے‘ کو صرف محنت کش عوام پر لاد دیا جاتا ہے۔ محنت کش طبقات اور غریب کی معیشت اور زندگی تو برباد ہے ہی لیکن حکمرانوں کی ''میکرو‘‘ معیشت کی حالت زار بھی اب ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں جو سیاستدان اور پارٹیاں اپنے منشور میں جس ترقی کے دعوے کر رہے ہیں‘ اس کے لئے سرے سے رقوم ہی موجود نہیں ہیں۔ جو ٹیکسوں میں اضافے کی بات کر رہے ہیں‘ وہ یہ قطعاً نہیں کہہ رہے کہ یہ ٹیکس امیروں‘ سامراجی اجارہ داریوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں و جاگیرداروں سے وصول کیے جائیں گے۔ اگر وہ ایسا کہیں گے تو پیسے کی سیاست کیسے کریں گے؟ جس کے بغیر ان کی کوئی فکری اور نظریاتی اوقات ہی نہیں ہے۔ اربوں کی کیمپین کرنے والے اپنے ہی فنانسروں پر کیسے ٹیکس لگا کر ترقی کریں گے؟
میری نظر میں یہ منصوبے اور ترقی کے سب وعدے محض فریب اور دھوکہ دہی ہیں۔ اگر وہ امیروں اور اجارہ داریوں پر ٹیکس لگائیں گے تو سرمایہ کاری کون کرے گا؟ بلکہ پہلے سے کی گئی سرمایہ کاری کو آج کی بین الاقوامی لبرلائزیشن کی پالیسی کے تحت سرمائے کی منتقلی اور منافع خوری کی مکمل آزادی ہے۔ جبکہ محنت کشوں اور غریبوں سے اچھی زندگی جینے کا بھی حق چھینا جا رہا ہے۔ ایسے میں قرضوں کی ادائیگی اور ریاستی خساروں کو کم کرنے کے لئے مزید بالواسطہ ٹیکسیشن ہو گی‘ جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ سبسڈیوں اور دوسرے سرکاری اخراجات کو ختم کرنے کی پالیسی سے بنیادی سہولیات‘ پینشنوں کے نظام‘ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے 70 سال کرنے اور ٹھیکیداری نظام سے سرکاری ملازمین کو بھی ڈیلی ویجز کی ملازمتوں میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ پارٹی کوئی بھی آئے یا کوئی بھی وزیر اعظم بنے‘ حکم مشرقی اور مغربی سامراجی سرمایہ کاروں اور ساہوکاروں کا ہی چلے گا۔ اس لئے آنے والی حکومت میں محنت کش عوام کو بد ترین معاشی حملوں اور مظالم کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا‘ لیکن محنت کشوں‘ جن کے سروں تک پانی پہنچ چکا ہے‘ کی برداشت بھی دم توڑے گی۔ تحریکیں‘ رجعتی وحشت اور انقلابی و ردِ انقلابی عوامل تیزی سے ایک کے بعد دوسرے کی شکل میں جو عدم استحکام پیدا کریں گے‘ ایسے میں جمہوریت تو در کنار آمریت کے جبر میں بھی معاشرے کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ایسے میں یا تو نیم فسطائیت رجعتیت کی شکل میں خونیں انارکی پیدا کرے گی یا پھر محنت کشوں کی انقلابی تحریکیں اس منڈی کی معیشت کو ختم کر کے سوشلسٹ معیشت کے ذریعے اس خلق کو آزاد کریں گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں