متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے برملا اعتراف کیا ہے کہ ''بحران اتنا شدید ہے اور اتنے فوری اقدامات کا متقاضی ہے کہ (آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ لینے سمیت) کسی بھی آپشن کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ کرنٹ اکائونٹ خسارے کو بھرنے اور بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے 11 ارب ڈالر فوری طور پر درکار ہیں جس کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے پھر سے ہاتھ پھیلائے جائیں گے۔ 1980ء کے بعد آئی ایم ایف سے لیا جانے والا یہ بارہواں قرضہ ہو گا۔ تاہم اب کی بار 'تبدیلی‘ کی سرکار برسراقتدار ہو گی‘ جو ماضی کی ہر حکومت کی طرح ہر برائی کا ذمہ دار پچھلی حکومت کو قرار دے رہی ہو گی‘ لیکن کئی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اتنا قرضہ آئی ایم ایف سے بھی نہیں ملے گا۔ 'موڈیز‘ نے پہلے ہی پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی ہے۔جو قرض ملے گا بھی اس کے لئے نجکاری اور مہنگائی جیسے اقدامات اٹھانے ہوں گے؛ اگرچہ نگران حکومت جاتے جاتے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں تیز کمی جیسی کئی وارداتیں کر گئی ہے‘ لیکن نئی آنے والی حکومت کو ہنی مون پیریڈ بہرحال نہیں ملے گا۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق مالی سال 2018-19ء میں مذکورہ بالا مدوں میں 28 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ سی پیک کے پراجیکٹوں کے لئے بڑھتی ہوئی درآمدات اور قرضوں کی کیفیت میں دسمبر کے بعد سے مرکزی بینک چار مرتبہ روپے کی قدر گرا چکا ہے۔ اسی دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ بھی جاری ہے‘ جو عالمی سطح پر بڑے معاشی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ 'بلومبرگ‘ کے مطابق پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ایشیا میں تیز ترین کمی کیساتھ 9 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں۔ یہ ذخائر اب اس سطح سے بھی نیچے ہیں جب ملک نے پچھلی دو بار آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ کے لئے رابطہ کیا تھا۔ بلومبرگ اپنے تازہ مضمون ''ایک معاشی بحران پاکستان کے نئے رہنما عمران خان کا منتظر ہے‘‘ میں لکھتا ہے‘ ''اب کی بار آئی ایم ایف کا رویہ بھی خاصا سخت ہو گا۔ پچھلی بار بھی بہت سی سٹرکچرل اصلاحات موخر کی گئی تھیں یا کی ہی نہیں گئی تھیں۔ نجکاری کا پروگرام ہو یا ٹیکس انفراسٹرکچر میں تبدیلیاں ہوں‘ آئی ایم ایف خاصی سختی کرے گا اور نیچے یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ اسی دوران معاشی نمو کی شرح چھ سالوں میں پہلی بار سست روی کا شکار ہو کر 5.2 یا اس سے بھی کم تک گر جانے کا امکان ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑے حجم کی غیر دستاویزی (کالی) معیشت کے پیش نظر ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب انتہائی کم (12.5 فیصد) ہے۔
آنے والی حکومت بھی 'ٹیکس نیٹ‘ میں اضافے کے لئے بالواسطہ ٹیکسوں میں ہی اضافہ کرے گی کیونکہ جب پالیسیاں 'بزنس کمیونٹی‘کے اشاروں پر بنیں گی تو امیروں پر براہِ راسٹ ٹیکس تو نہیں لگے گا۔ پاکستان میں پہلے ہی حکومتی آمدن کا 70 سے 80 فیصد عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہو تا ہے۔ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ تاریخی طور پر اس قدر تاخیر زدہ اور نحیف ہے کہ ٹیکس چوری اور بدعنوانی کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ویسے بھی عمران خان جو بیرونی سرمایہ کاری لانے کی بات کرتا ہے اس کے لئے سرمایہ داروں کو ہر قسم کی چھوٹ اور لوٹ مار کی اجازت دینا پڑتی ہے۔ کارپوریٹ منافعوں پر معمولی سی ضرب بھی سرمائے کی پرواز کو تحریک دیتی ہے جس سے اقتصادی بحران شدید تر ہو جاتا ہے۔ یوں زمینی حقائق کو دیکھا جائے‘ تو سرمایہ داری کی ہر پالیسی سرمایہ داروں کے مفادات کی تابع ہو تی ہے اور ایک کرپٹ نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش اس کے خلفشار کو شدید تر ہی کرتی ہے۔ آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں پر اس قدر انحصار کیساتھ معاشی معاملات میں عمران خان حکومت کا اختیار برائے نام ہی ہو گا۔ ماضی کی طرح بجٹوں کا بڑا حصہ قرضوں کے سود کی نظر ہوتا رہے گا۔ یہاں دفاعی بجٹ میں کمی کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔ یوں حکومتی آمدن کا کم و بیش دوتہائی قرضوں اور دفاعی اخراجات کی نظر ہوتا ہے اور باقی زیادہ تر ریاستی کارگزاریوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اِس نظام میں ان اخراجات کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ عمران خان نے ''سادگی‘‘ اپنانے کی بھی بہت باتیں کی ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی وہ ایسے وعدے اور دعوے کرتا رہا ہے لیکن پختونخوا حکومت کی کارستانیاں کچھ اور ہی داستان سناتی ہیں۔
اب کی بار شاید ایسے کچھ کاسمیٹک اقدامات کر بھی دئیے جائیں‘ لیکن عام ریل ڈبے میں گاندھی کے سفر سے لے کر ضیاالحق کی سائیکل سواری تک‘ اس نظام میں حکمرانوں کی 'سادگی‘ عوام کو زیادہ مہنگی پڑا کرتی ہے۔ حکومتی گیسٹ ہائوسز کو ہوٹلوں میں تبدیل کر کے اتنے دیوہیکل خسارے بھرنے اور قرضے اتارنے کی باتیں سراسر مضحکہ خیز ہیں۔ جہاں تک تعلیم اور صحت کا تعلق ہے تو سرکار کے پاس ان دیوالیہ مالیاتی حالات میں 'ہیومن ڈویلپمنٹ‘پر خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ایک بار پھر نجی شعبہ ہے‘ جس کے مالکان تحریک انصاف سمیت ہر مروجہ پارٹی پر براجمان ہیں۔ تعلیم و علاج جیسے بنیادی انسانی حقوق کو بازار کی جنس بنا کے غریبوں کو کنگال کر رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی نجی شعبے کیساتھ مل کے عمران خان نے پچاس لاکھ گھر بنانے کی بات کی ہے۔ لیکن گھروں کی تو یہاں پہلے ہی بھرمار ہے۔ رئیل اسٹیٹ یہاں کے منافع بخش ترین دھندوں میں سرفہرست ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت کے پاس ان گھروں کو خریدنے کی سکت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ 'نجی شعبہ‘ ہر کام منافع خوری کے لئے کرتا ہے‘ انسانوں کی سہولت کے لئے نہیں۔
عمران خان مقتدر قوتوں کا کتنا ہی لاڈلا کیوں نہ ہو‘ اسے خارجہ امور اور 'سکیورٹی معاملات‘ میں ٹانگ اڑانے کی اجازت بہرحال نہیں ملے گی۔ ہندوستان سے تعلقات سمیت اس کے اختیارات نواز شریف یا کسی بھی سابقہ سویلین حکمران سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ بلکہ یہ حکومت شاید ملک کی تابع ترین اور کمزور ترین حکومت ہو گی۔ اس حقیقت کا ادراک عمران خان کو جلد ہی ہو جائے گا اور اگر نہیں ہو گا تو کروا دیا جائے گا۔ جس نظام میں حکومتیں بنتی ہیں وہی ان حکومتوں کو چلاتا بھی ہے۔ ہر فیصلہ‘ ہر اقدام اسی کے تقاضوں کے تحت کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ کارل مارکس نے واضح کیا تھا کہ کوئی قانون سازی مروجہ نظام سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام جس بحران کا شکار ہے اور یہ بحران جس سماجی خلفشار اور سیاسی انتشار کر جنم دے رہا ہے اس میں کوئی مستحکم اقتدار نہیں آسکتا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے نہ چاہنے کے باوجود بھی آبادی کی درمیانی پرتوں نے اس کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ لیکن اس کے پاس کوئی متبادل پروگرام اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ اور اس کی پارٹی اسی نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ غریبوں اور محنت کشوں کے لئے اِس نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ درمیانے طبقات کی اکثریت کا وجود اور معیارِ زندگی کچے دھاگے سے بندھا ہوا ہے‘ جو امیدیں عمران خان سے وابستہ کی گئی ہیں اور جو خواب اس نے دکھائے ہیں ان کا بہت جلد ٹوٹنا ناگزیر ہے۔ آنے والے دنوں میں اسے اپنی ماضی کی لفاظی کے برعکس ہر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔
'تبدیلی‘ کا یہ عمل کئی طرح کے متضاد نتائج پیدا کرے گا‘ جو سماجی شعور میں معیاری تبدیلیاں بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے کسی 'تبدیلی‘ کا یوٹوپیا بے نقاب اور رسوا ہونا شاید سماج کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری بھی تھا۔ حالات اور واقعات ہی لوگوں پر واضح کریں گے کہ انہیں جو تبدیلی درکار ہے‘ وہ چہروں کو بدلنے سے نہیں‘ بلکہ منڈی اور منافع کے اس پورے نظامِ سرمایہ کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی برپا ہو سکتی ہے۔