'جعلی خبر‘ (Fake News) کی اصطلاح کا گھڑا جانا اور اس کا کثیر استعمال کوئی حادثہ نہیں ہے۔ پاکستان اور پوری دنیا میں حاوی دانش کی قابل رحم حالت کا یہ عالم ہے کہ حقائق کی بات کرنے کو قنوطیت اور ایک ریڈیکل اور فیصلہ کن تبدیلی کے لئے انقلابی متبادل پیش کرنے کو یوٹوپیا اور پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔ دراصل جعلی خبریں موجودہ دور میں اب واحد اچھی خبر رہ گئی ہیں۔ یہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے طویل اور گہرے ہوتے ہوئے بحران کا نتیجہ ہے جسے کارپوریٹ میڈیا اور انٹیلی جنسیا کے کچھ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں دنیا میں سب سے زیادہ لوگ، 820 ملین سے زیادہ، پورے سیارے میں بھوک اور قحط کا شکار تھے۔ لیکن یہ صرف بھوک اور محرومی کی بات نہیں ہے بلکہ کبھی نہ دیکھے گئے تشدد، دہشت، خونریزی، پراکسی جنگوں، عالمی معیشت میں عدم استحکام، تجارتی جنگوں‘ سیاسی بھونچال، سماجی دبائو، عوامی تحریکوں اور عالمی تعلقات میں انتشار کا بھی شکار ہیں؛ تاہم سنجیدہ بورژوا تجزیہ نگار اور پالیسی ساز بھی ان حالات سے نظام اور استحصالی سرمایہ دارانہ حاکمیت کو درپیش خطرات کے بارے میں پریشان ہیں۔ 'ٹائم‘ رسالے کے ایک سپیشل سروے کے مطابق، ''منڈیاں پھیل رہی ہیں لیکن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک‘ دونوں میں شہریوں کے بیچ تفریق بڑھ رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد لبرل جمہوریت کی حمایت اپنی کم ترین سطح پر ہے اور عالمی نظم و ترتیب بکھر رہی ہے۔ پچھلے بیس برسوں میں عالمی سیاست میں بے شمار بھونچال آئے‘ لیکن سال 2018ء اپنے اندر ایک غیر متوقع‘ مگر 2008ء سے بھی شدید‘ معاشی بحران سموئے ہوئے لگتا ہے۔ حکومتیں، سیاسی پارٹیاں، عدالتیں، میڈیا اور مالیاتی ادارے جو امن اور خوشحالی قائم رکھتے ہیں، عوام کی نظروں میں اپنی حیثیت اور قدر کھو رہے ہیں۔‘‘ امریکہ کی کرسیٔ صدارت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے براجمان ہونے کے بعد یہ تضادات مزید شدید ہو گئے ہیں۔ سی ایف آر (CFR)، کی سالانہ سروے کے مطابق، ''آج کی دنیا میں امریکہ سب سے زیادہ ناقابل پیشین گوئی ملک بن چکا ہے جس سے عدم استحکام مزید گہرا ہو گیا ہے۔ پہلے آپ امریکہ کو ایک طرف رکھ کر دنیا کے ان حصوں کا تجزیہ کرتے تھے جہاں سب سے زیادہ عدم استحکام اور عدم تحفظ ہوتا تھا۔ آج کے عہد میں آپ کو امریکہ کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنا پڑتا ہے۔ اس صدر کو دیکھتے ہوئے کسی دی ہوئی صورت حال میں کسی کو بھی ہم امریکیوں کے رد عمل کا پتہ نہیں ہے۔‘‘ ٹرمپ یقینا اس نئی صورت حال کو خوش آمدید کہیں گے جیسا کہ انہوں نے خود کہا، ''میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ میں کیا کر رہا ہوں یا کیا سوچ رہا ہوں۔‘‘ ٹرمپ نے 2015ء میں لکھا تھا، ''اس سے لوگ غیر یقینی کی حالت میں رہتے ہیں۔‘‘
2008ء کی معاشی تباہ کاری کو اب دس سال ہو چکے ہیں۔ 2008-9ء کے دوران تجارت اور صنعتی پیداوار 1929ء کی عظیم کساد بازاری سے زیادہ تیز رفتار سے گر رہی تھی۔ ان دس سالوں میں عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کم شرح نمو اور سرمایہ کاری کا شکار رہی ہے اور وہ بھی بے تحاشا کارپوریٹ قرضوں کی قیمت پر۔ مجموعی عالمی قرضہ اب 247 کھرب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو عالمی جی ڈی پی کا 250 فیصد ہے۔
دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاری اور بعد کی تعمیر نو کے نتیجے میں ہونے والے سرمایہ دارانہ معاشی ابھار کے تحت قائم ہونے والے معاہدوں کی آخری باقیات کو بھی اب ختم کیا جا رہا ہے۔ بعد از جنگ مزدوروں اور نوجوانوں کی ابھرنے والی تحریکوں کو منتشر کرنے کے لیے حکمران طبقات نے نہ چاہتے ہوئے جو مراعات دی تھیں؛ مفت صحت کی سہولیات، رہائش، بیروزگاری الائونس، مفت تعلیم، عمر رسیدہ افراد کے لیے مناسب پینشن اور فلاحی ریاست، ان کو اب بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔ تین دہائیوں سے حکمران طبقات محنت کشوں کی حاصل کی ہوئی ان مراعات سے نالاں تھے۔ اب انتہائی عجلت میں ان مراعات کو ختم کیا جا رہا ہے۔
پچھلے دس سال سے زائد عرصے سے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت 2008ء کے کریش کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ماضی کی مانند ایک صحت مند معاشی نمو اور ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں ہونے والی نسبتاً بلند شرح نمو کمزور اور عارضی ہے۔ مقداری آسانیQuantitative Easing (یعنی مرکزی بینک کی جانب سے نوٹ چھاپنا) کے ذریعے 3.7 کھرب ڈالر چھاپنے کے باوجود، گرتی ہوئی شرح منافع کی وجہ سے پیداواری سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ دوسری طرف بھاری رقوم زمینوں، پراپرٹی، فن کے نمونوں اور اثاثے ہتھیانے میں لگائی جا رہی ہیں۔ عالمی پیداوار میں کمی کا اگر سابقہ شرح نمو کے اندازوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ کمی 8.4 فیصد ہے یعنی جرمنی کی پوری معیشت کے برابر کمی۔
چین میں کبھی نہ دیکھے گئے کارپوریٹ قرضے اب وہاں قرضوں کی دستیابی کے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی تجارتی جنگ وہ واحد ذریعہ تھا جس کے ذریعے صنعتی شرح نمو میں مصنوعی اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ 1930ء کی دہائی کی مانند اور 2008ء کے برعکس حکومتیں پروٹیکشن ازم، تجارتی محصولات اور کرنسی کی قیمتوں میں کمی کے حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ایک نئے کریش کی صورت میں، جب پہلے ہی شرح سود صفر کے قریب ہے، مالیاتی پالیسیوں میں کسی طرح کے رد و بدل کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں‘ اور عالمی قرضوں کی دیوہیکل حجم کے ہوتے ہوئے وزرائے خزانہ مزید قرضے لینے سے ہچکچاتے ہیں۔
یہ وہ عوامل ہیں جو اس سرمایہ دارانہ زوال کے عہد میں انتشار کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بعد از جنگ کی لبرل نظم و ترتیب اب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے‘ جبکہ جمہوری ہم آہنگی کا دور گزر چکا ہے۔ ایک گہری تقسیم جنم لے چکی ہے۔ 2008ء کے بحران کے بعد تیس سے زائد قومی انتخابات میں برسر اقتدار پارٹیاں ایک تہائی سے کم انتخابات جیت سکیں۔ اس کی ایک وجہ ایک مربوط عالمی معیشت کا ارتقا ہے‘ جس پر دیوہیکل عالمی اجارہ داریاں قابض ہیں‘ جہاں کسی حکومت کی مرضی یا ضروریات سے قطع نظر سرمائے کا بہائو، سٹہ بازی یا سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ قوم پرست‘ قدامت پسند اور محنت کشوں کی روایتی پارٹیوں نے کٹوتیوں اور نیولبرل پالیسیوں کو ہی لاگو کیا‘ جس سے محنت کشوں میں خوف اور بیگانگی نے جنم لیا۔ حکمران طبقات زیادہ جارحانہ سیاسی اور معاشی حملوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے 'اسٹیبلشمنٹ‘ کی روایتی پارٹیوں کے لیے مڈل کلاس اور پسماندہ عناصر کی کم ہوتی ہوئی حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب واضح طور پر رجعتی شائونسٹ پارٹیوں کو ابھارنا شروع کر دیا ہے۔ حکمران طبقات اب مصنوعی پارلیمانی طریقوں کو ترک کر کے نیو فاشسٹ پارٹیوں جیسے بی جے پی (انڈیا)، پی ٹی آئی جیسی نیم مذہبی اور نیم لبرل (پاکستان)، UKIP، فرنٹ نیشنل، لیگا، اے ایف ڈی اور یورپ میں دوسری انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو ابھار رہی ہیں۔ سرمایہ داری اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ایک ترقی پسند نظام سے اب ایک رجعتی قوت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سائنس میں تکنیکی انقلابات، بجلی، ٹیلی گراف، ریلوے، صنعتی کنویئر لائنز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اب مصنوعی ذہانت اور بہت سی دوسری ایجادات اور دریافتوں نے سرمایہ داری کو ارتقاء کی موجودہ سطح پر پہنچایا ہے۔ ان کو صرف اپنی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کیا گیا نہ کہ پورے سماج کے فائدے اور عام آدمی کو غربت اور محرومی سے نکالنے کے لیے۔ آج صرف آٹھ افراد کے پاس ساڑھے سات ارب انسانوں کی 70 فیصد دولت ہے جبکہ اربوں لوگ غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ غیر انسانی نظام انسانیت کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہی انسانیت کی نجات اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔ آج کے پُر انتشار اور محرومی کے دور میں یہی انقلابی تناظر حقیقی رجائیت پر مبنی راستہ ہے۔