"DLK" (space) message & send to 7575

کشمیر: لہو لہو انتخابات

کسی خارجی جارحیت کے قبضے میں کرائے جانے والے کوئی بھی انتخابات اُس خطے کے جمہور کی محکومی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی اذیت سے کم نہیں ہوتے۔ حالیہ دور میں سامراجی جارحیت تلے امریکی غاصب فوجوں کے ماتحت عراق اور افغانستان میں انتخابات ہوں یا پھر کشمیر اور فلسطین میں بھارتی اور اسرائیلی ریاستوں کی خونریزی کے لہو میں نہائے ہوئے انتخابات‘ یہ محض ان ''جمہوری‘‘ اور ''مہذب‘‘ کہلانے والی ریاستوں کے جبری قبضے کے لئے بے بنیاد جواز سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لیکن اب یہ ظلم بہت حد تک واشگاف ہو چکا ہے۔ یہ انتخابات کسی سیاسی اخلاقی یا سفارتی جواز کی فراہمی کی بجائے ان جابر ریاستوں کو مزید بے نقاب کرتے چلے جا رہے ہیں‘ اور عوام کے ان انتخابات کو مسترد کرنے کے عمل سے ان کے ظلم کے چرچے زیادہ واضح ہو کر دنیا بھر میں بڑی حد تک ان کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات، جو تین مرحلوں میں اکتوبر کے اواخر میںختم ہوں گے، پچھلے ستر سالوں کے سب سے زیادہ ناکام و نامراد انتخابات ثابت ہو رہے ہیں۔ کشمیر کے عوام کی اشتراکی بغاوت کی شدت اور دباؤ کی وجہ سے 2005ء کے 13 سال بعد ہونے والے ان لوکل انتخابات میں امیدواروں کی اکثریت نے ان انتخابات سے منحرف ہونا ہی مناسب سمجھا ہے۔70 سال میں پہلی مرتبہ بھارت نواز پہچان رکھنے والی دو سب سے بڑی پارٹیوں ''نیشنل کانفرنس‘‘ اور ''پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 70 فیصد نشستوں پر کوئی انتخابی مقابلہ ہو ہی نہیں رہا۔ ان انتخابات کو جبری طور پر مسلط کرنے کے لئے مزید 50,000 پیرا ایلیٹس بھارت سے منگوائے گئے ہیں‘ جبکہ سات لاکھ بھارتی فوج پہلے ہی اس حسین وادی پر قابض ہے اور ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے۔ یہ صرف علیحدگی پسندوں یا مسلح گروپوں کے انتباہ کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہاں کے مقامی عوام کی تحریک کا سماجی اور عوامی دبائو اتنا شدید ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لینے کے معنی ظالم اور فاسق بھارتی سامراج کی طرف داری اور اس کے جبر میں سہولت کار ہونے کے مترادف ہو گیا ہے۔ کل 598 نشستوں میں سے صرف 178 نشستوں پر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ووٹنگ ہو رہی ہے۔ 236 نشستوں پر صرف ایک یک امیدوار ہیں جو شاید بلا مقابلہ منتخب بھی ہو جائیں گے‘ لیکن ان کے نام صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں۔ تمام امیدواروں کو سرکاری اہلکاروں کے تحفظ میں غائب ہی کر دیا گیا ہے۔ جو تھوڑی بہت مہم جاری ہے وہ بھی محض موبائل کے ٹیکسٹ میسجوں تک محدود ہے۔
اب میدان میں صرف دو پارٹیاں رہ گئی ہیں، بی جے پی اور کانگریس۔ ان دونوں پارٹیوں کی جڑیں کشمیر میں ہیں ہی نہیں‘ جبکہ کشمیر کی تمام مقامی پارٹیاں انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہیں۔ انتخابات کے پہلے روز گلیاں سونی سونی اور پولنگ بوتھ ویران رہے۔ ہر طرف فوجیوں کے پہرے تھے اور سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ایک کرفیو جیسا سماں تھا‘ جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے اس انتخابی عمل کی قلعی کھول رہا تھا کہ اس جمہوریت کی حاکمیت میں یہاں کے جمہور کا کتنا ہاتھ اور کتنی رضا شامل ہے۔ بڑے الیکشن آفس نے امیدواروں کے نام آویزاں کرنے سے انکار کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور سرکاری دھمکیاں جاری ہیں۔ ظاہری طور پر نیشنل کانفرنس شیخ عبداللہ (فاروق عبداللہ) اور جی ڈی پی (محبوبہ مفتی) کی پارٹیوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا جواز موجودہ حکومت اور بھارتی سپریم کورٹ سے بھارتی آئین میں کشمیر کو دیے گئے سپیشل سٹیٹس کی شق نمبر35-A کے خاتمے کے خطرے کو قرار دیا ہے۔ اس شق کے مطابق ''جموں اور کشمیر ریاست‘‘ کے باسیوں کے علاوہ باقی بھارت سے کسی کو یہاں مستقل سکونت یا املاک خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ شق شیخ عبداللہ اور جواہر لعل نہرو کے درمیان ہونے والے بھونڈے مصالحتی معاہدے کو کامیاب کروانے کے لئے آئین میں ڈالی گئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ سے اس شق کا خاتمہ کروانے کا مقصد کشمیر میں قومیت اور مذہب کے لحاظ سے آبادی کے تناسب کو ہی یکسر بدل دینا ہے۔ بڑے پیمانے پر تربیت دیتے ہوئے باقی بھارت سے درمیانے اور کاروبار طبقے کے افراد کی بڑی آبادی کو کشمیر شفٹ کرنے کا منصوبہ ہندوتوا کا پرانا ایجنڈا ہے تاکہ اس''قومی آزادی‘‘ کے مسئلے کو قومی اقلیت تبدیل میں کر کے ختم کرایا جائے۔ لیکن ان پارٹیوں کے انتخابی بائیکاٹ کی اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے تو ان کو امیدوار ہی نہیں ملتے اور دوسری جانب جس حد تک اب بھارتی حاکمیت کے خلاف عوامی نفر ت شدت اختیار کر چکی ہے اس سے ان کو جو صوبائی اور قومی انتخابات میں تھوڑے بہت حقیقی ووٹ ملتے تھے‘ وہ بھی حاصل نہیں ہونے تھے۔ زیادہ تر امیدوار جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ وہ پولیس کی سخت نگرانی میں گھروں کی بجائے ہوٹلوں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے انتخابات تو دنیا بھر میں شاید ہی کہیں ہوئے ہوں گے۔ اس وقت کشمیر میںکوئی مقامی حکومت نہیں ہے۔ بی جے پی اور پی ڈی پی کی سابقہ مخلوط حکومت امسال جون میں گر گئی تھی۔ اب گورنر راج نافذ ہے اور مرکز سے براہِ راست حکمرانی کی جا رہی ہے‘ جس سے ظلم و جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کہیں تھوڑی بہت ووٹنگ ہوئی بھی ہے تو وہ ہندو اکثریت کے علاقے جموں، لداخ اور کارگل وغیر ہ ہیں۔ باقی پوری وادی میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بھی کل ووٹنگ کی شرح 6.2 فیصد رہی، یہ بھی مبالغہ آرائی پر ہی مبنی ہے۔
ہندو بنیاد پرست مودی سرکار، بی جے پی اور آر ایس ایس کی یہ کوشش ہے کہ جبر کے ذریعے اور کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بدلتے ہوئے اس کو ''اکھنڈ بھارت‘‘ بنا کر ایک عبرتناک انجام سے دوچار کیا جائے۔2019ء میں متوقع انتخابات میں مودی اور بی جے پی کی کامیابی کا اعتماد بہت کمزور ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت میں ''قومی‘‘ انتخابات کو کھینچ کر اس سال دسمبر میں کروانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن کشمیر میں وہ اگر سات لاکھ فوج بھیج کر بھی اپنا کنٹرول حاصل نہیں کر سکتے تو پھر آنے والے وقتوں میں بھی یہ حاکمیت کشمیر کے عوام کو کبھی فتح نہیںکر سکتی۔ یہاں 2016ء سے چلنے والی تحریک ماضی کی تحریکوں سے مختلف ہے۔ اس تحریک نے کسی بیرونی مداخلت کی حمایت کو مسترد اور متروک کیا ہے۔ اب بھارتی حکمرانوں کے اس پروپیگنڈا کہ اس تحریک میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے‘ کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ دوسرا یہ کہ اس تحریک میں مذہبیت کا عنصر بہت ہی کم ہو کر رہ گیا تھا‘ جس سے اس کو کشمیر کی باقی آبادی کے علاوہ بھارت کے عام نوجوانوں اور محنت کشوں کی جانب سے بھی دلوں سے پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کی وارداتوں اور بیرونی عناصر کی مداخلت سے تحریک کمزور ہوتی رہی اور بھارتی فوج کے جبر کو جواز ملتا رہا۔ حالیہ تحریک کے کردار میں شعور کی بلندی اور جرأت کے ساتھ عقل کا مظاہرہ بھی واضح ہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام اپنے حقیقی مطالبات اور بنیادی ضروریات و حقوق کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو دنیا کی جابر سے جابر اور بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کے سامنے آخر کار شکست و ریخت کا ہی شکار ہوتی ہے۔ پھر چاہے وہ ویتنام کے کمیونسٹو ں کی جدوجہد ہو جس نے امریکی فوج، جو دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور عسکری قوت تھی، کو شکست دی تھی یا کوئی اور۔ اسی طرح روس کے انقلاب سے لے کر اب تک دنیا بھر میں عوام کی انقلابی تحریکوں نے ہر جبر اور فسطائیت کو شکست دی ہے۔ کشمیری عوام کہیں معاشی، سماجی و سیاسی غلامی کا شکار ہیں‘ اور کہیں بھارتی ریاست کی براہِ راست قتل و غارت گری کا جرأت مندانہ مقابلہ کر رہے ہیں۔ ابھی تک ان کو برصغیر کی مختلف قوموں اور خطوں سے کوئی ٹھوس عوامی اور محنت کشوں کی تحریک کی حمایت بھرپور انداز میں حاصل نہیں ہو سکی ہے‘ لیکن کشمیر کے نوجوان اور محنت کش جاگ اٹھے ہیں اور ان کی جدوجہد اور لڑائی ایسی مثالیں پیش کر رہی ہے جس سے برصغیر کے ہر کونے میں اس ستم گر نظام کے خلاف ایک انقلابی بغاوت کا جذبہ دھڑک رہا ہے۔ یہ آتش فشاں جب پورے جنوبی ایشیا میں بھڑک اٹھا تو پھر حکمرانوں کے جبر کے برج اور مینار بھی زمین بوس ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں