"DLK" (space) message & send to 7575

ماحولیاتی آلودگی : مجرم کون؟

پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی میں ریکارڈ درجہ حرارت، غلاظت و گندگی کے ڈھیروں اور پانی کی قلت نے یہاں کے باسیوں کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں۔ماحولیاتی تباہ کاری کی اضافی آفت نے پورے ملک میں محکوم طبقات کے دکھوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔پاکستان اب پانی اور غذائی قلت کا شکار ملک بن چکا ہے۔ حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک طرف مون سون کی شدید بارشیں اور سیلاب‘ اور دوسری طرف جان لیوا خشک سالی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے سبب پانی کی مقدار میں کمی آرہی ہے‘ جس سے دریائے سندھ میں پانی کے بہائو کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سیلابوں کی وجہ سے بڑے ڈیموں کا پانی گندا ہوتا جا رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے‘ بالخصوص کم بارش والے علاقوں میں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ ٹمبر مافیا پہلے سے کم جنگلات کو مزید برباد کر رہا ہے۔ سندھ ڈیلٹا میں واٹر لاگنگ اور پانی میں نمکیات کی زیادتی کی وجہ سے ساحلی پٹی پر زراعت، چمرنگ اور مچھلی کے شکار متاثر ہو رہے ہیں۔ صحت کولاحق خطرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو پلاسٹک کے تھیلوں کی وجہ سے شدید گندگی کا سامنا ہے۔ ریاستی اداروں اور سیاسی حکومتوں کی نااہلی کا یہ عالم ہے کہ ان کے پاس سماج کو خطرات سے دوچار کرنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم فیصلوں پر عمل درآمد کا اختیار ہی نہیں۔ پلاسٹک کے تھیلوں پر 2014ء سے نافذالعمل پابندی کے باوجود اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ایک سروے کے مطابق اس وقت ملک میں 55 اَرب پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہو رہے ہیں اور ہرسال اس میں 15 فیصد اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی چھتری تلے تشکیل کردہ بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کی پچھلے ہفتے کی ایک تشویشناک رپورٹ میں 1.5 درجہ سینٹی گریڈکی گلوبل وارمنگ کے خطرات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بھیانک ہیں اور نہ صرف سماجی بلکہ ماحولیاتی طور پر بھی اسے اکثر نظرانداز کیا گیا ہے۔ پہلے ہی 1سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے اضافے سے کبھی نہ دیکھی گئی ہیٹ ویو، ہیوریکین، سیلاب اور گلیشئرزکی ٹوٹ پھوٹ کے مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں۔اس تباہ کاری کو اب روکا نہیں جاسکتا لیکن اسے اب بھی 1.5سینٹی گریڈ تک محدود کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1.5سینٹی گریڈ کے برعکس 2سینٹی گریڈ کا اضافہ زیادہ سنجیدہ مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ 2سینٹی گریڈ اضافے سے تو زمین 'گرم سیارے‘ میں تبدیل ہونے کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ آئی پی سی سی کے اندازوں کے مطابق 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کا ہدف بھی نیگیٹو ایمیشن ٹیکنالوجی‘(Negative Emission Technologies) اور جیو انجینئرنگ کے وسیع استعمال کے باوجود انتہائی مشکل عمل ہوگا۔لیکن ان ٹیکنالوجیز پر ابھی تک تجربہ نہیں کیا گیا۔اسی وجہ سے رپورٹ میں درجہ حرارت میں 'عارضی تیز اضافے‘ (Temporary overshoot)کا حوالہ دیا گیا ہے‘ جس کے بعد اس صدی کے دوسرے نصف میں ان ٹیکنالوجیز کے ذریعے درجہ حرارت میں کمی لائی جائے گی۔ اس Temporary overshootسے گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کے گلیشیئرز کے بڑے ٹکڑے اچانک ٹوٹ سکتے ہیں جس سے سطح سمندر میں کئی میٹر اضافہ ہو سکتا ہے۔ سائنسدان خبردار کرتے ہیں کہ' کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کا ہر ٹن ‘مسئلے کا حصہ ہے۔ ماحولیات کو بچانے کا تقاضا ہے کہ فوسل ایندھن کا استعمال فوراً بند کیا جائے۔لیکن یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ ان سب کے باوجود سرکاری 'ماہرین‘ کیونکر بے کار یا نقصان دہ چیزوں (وسیع پیمانے پر ہتھیار اور ملٹی نیشنلز کے منافعوں کو بڑھانے والی اشیا کی نقل و حمل) کی پیداوار اور استعمال سے پیدا ہونے والی گیسوں کے اخراج پر بات نہیں کرتے؟
بنیادی طور پردرجہ حرارت کو 1.5ڈگری تک محدود رکھنے کی حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ ترجیحی بنیاد پر تمام تر مضر پیداوار کو ختم کیا جائے اور مقامی ایگرو ایکولوجی (جو کاربن کی بڑی مقدار کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ ہر کسی کو اچھی غذا بھی فراہم کرسکتی ہے)کی خاطر ایگری بزنس کو ترک کیا جائے۔لیکن اس کا مطلب سرمایہ دارانہ منافع کے اصولوں کو خیرباد کہنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ منافع آج کے عالمی معاشی نظام کی بنیاد ہے۔جہاں تک ماحولیاتی تبدیلی کے طبعی مظہر کا تعلق ہے تو آئی پی سی سی کی ماہرانہ رائے بنیادی نوعیت کی ہے‘ لیکن اسے محدود کرنے کی حکمت عملیاں سرمایہ دارانہ منافع کی ترجیحات کی وجہ سے جانبدارانہ ہیں۔ 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کی Temporary overshootاور نیگیٹو ایمیشن ٹیکنالوجیز اور جیو انجینئرنگ کا استعمال بھی منافعوں کے تقاضوں کی ہی عکاسی کرتا ہے۔
سرمایہ داری کی ساخت اور حرکیات میں ہی وہ عوامل پوشیدہ ہیں جو انسانی سماج کو برباد کرسکتی ہیں۔سرمائے کے مسلسل پھیلائو اور اجتماع‘ اور تمام تر نتائج کو خاطر میں لائے بغیر منافع کی نہ ختم ہونے والی ہوس کا مطلب نہ صرف انسانوں کا بے رحمانہ استحصال‘ بلکہ زمین کی قدرتی وسائل کی لوٹ مار او ربربادی بھی ہے۔ اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ زیر زمین ذخائر کی لوٹ مار اور نیولبرل معاشیات کو ترک کریں۔ توانائی کے شعبے کی اجتماعی ملکیت کو اپنا کر توانائی کے 100 فیصد قابل تجدید نظام کی طرف جائیں۔ ری سائیکل شدہ توانائی کے استعمال اور ماحولیاتی انصاف (Climate justice)کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ منافع کی ترجیحات ہی ہیں۔جب ماہرین یہ کہتے ہیں کہ 'کاربن ڈائی آکسائڈ کے خارج ہونے والے ہر ٹن کو گننا چاہیے‘ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حساب کتاب کون کرتا ہے؟ اور کن سماجی اور طبقاتی ترجیحات کی بنیاد پر کرتا ہے؟ ایک چوتھائی صدی سے سرمایہ دار طبقہ اور ان کی حکومتیں سماج کی حقیقی ضروریات کے برعکس حساب کتاب اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ نتیجہ مزید نابرابری، محکومیت اور استحصال، مزید ماحولیاتی تباہ کاری، امیروں کی جانب سے زمینوں اور وسائل پر مزید قبضے اور پہلے کی نسبت مزید ماحولیاتی خطرات ہیں۔اس سب کو اب تبدیل ہونا ہوگا۔
عالمی سطح پرماحولیاتی تباہ کاری سے متاثرہ عوام، ٹریڈ یونینز، نوجوان، کسان اور محنت کش طبقات کی ایک مشترکہ طاقتور تحریک کی فوری ضرورت ہے۔ اب صرف احتجاج کرنے اور پالیسی سازوں پر دبائو ڈالنے کا وقت چلا گیا۔ محکوم طبقات کی تمام تر جدوجہد وں کو یکجا ہو کر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فوسل فیول کی تمام تر سرمایہ کاری، زمینوں پر قبضے اور عسکریت کو روک کر پورے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ صرف استحصال زدہ اور محکوم طبقات کی مشترکہ جدوجہد ہی پوری دنیا کے مفاد میں ان مسائل کو ختم کر سکتی ہے۔ سرمایہ داری عالمی سطح پر اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ریاستیں مقامی لحاظ سے اتنے بحران میں ہیں کہ وہ کبھی ماحولیاتی تبدیلی کے اس خطرے سے نہیں نمٹ سکتیں کیونکہ ان کے منافع جات آڑے آجاتے ہیں۔اس بھیانک صورت حال میں پاکستانی سرمایہ داری‘ مالیاتی اور معاشی طور پر اتنی کمزور ہے کہ وہ اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنے کی خاطر ٹیکس چوری، ریاست اور بینکوں کی لوٹ مار اور محنت کشوں کے استحصال اور محکومی کے بغیر چل نہیں سکتی۔ اس طرح کی طفیلی اشرافیہ اور ان کی حکومت بھلا کیسے کاربن کے اخراج کو روک کر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کرکے سماج کو ایک مکمل تباہی سے بچا سکتی ہیں؟ یہ حقیقت ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت اور اس کی غیر انسانی فطرت کو تمام شک و شبے سے بالاتر ثابت کرتی ہے۔ سرمایہ داری سے نسل انسان کے وجود کو خطرہ ہے۔ اس دور کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ محنت کش طبقے کی اس قابلیت پر اعتماد کو بحال کیا جائے کہ وہ سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی کو انسانیت کے تحفظ کے لیے استعمال میں لا سکتا ہے۔ یہ فریضہ اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب ایک ایسا سماجی معاشی نظام قائم کیا جائے جس کا مقصد حصول منافع کی بجائے انسانیت کی آزادی اور تحفظ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں