بھاپ کے انجن کے استعمال کی شروعات اور پہلے صنعتی انقلاب سے اب تک تقریباً تین صدیوں کے دوران سرمایہ داری مختلف مراحل سے گزری ہے‘ لیکن انسانی محنت کے استحصال سے قدرِ زائد (منافع) کا حصول‘ وحشیانہ جنگیں‘ نوآبادیاتی اور سامراجی جبر ‘ گردن توڑ مقابلہ بازی‘ بڑے پیمانے پر وسائل کا زیاں‘ ماحولیاتی تباہی‘ محکوم قوموں پر ظلم اور خواتین کا دوہرا استحصال اس کی بنیادی خصلتوں میں شامل رہا ہے؛ اگرچہ طریقہ ہائے واردات بدلتے رہے ہیں۔ٹیکنالوجی‘ صنعت اور تجارت میں ہونے والی ترقی اور ایجادات بھی سرمایہ داری کو نئی زندگی بخشی رہی ہیں۔
بھاپ کے انجن سے لے کر بجلی‘ ٹیلی گراف‘ ریلوے‘ صنعتی کنویئر بیلٹوں‘ آٹومیشن‘ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ اور اب مصنوعی ذہانت (ArtificialIntelligence) اور دیگر سائنسی و تکنیکی ایجادات نے سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت تک ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔ ان پیشرفتوں نے پیداوار میں تیز اضافہ کیا۔ پچھلی صدی میں کنٹینرز کی ایجاد نے تجارت میں ایک انقلابی تبدیلی متعارف کروائی۔ اس کے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں اجناس کی پیداوار پر دیوہیکل اثرات مرتب ہوئے‘تاہم اس نظام کی حدود و قیود میں اس تمام ترقی کو شرح منافع میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے نہ کہ اربوں عام لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کے لئے۔
سرمایہ داری کی پوری تاریخ میں بالخصوص ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں سماجی استحکام کے لئے کی جانے والی اصلاحات کے باوجود وہاں وقتاً فوقتاً سماجی ہلچل جاری رہی‘ انقلابی تحریکیں ابھرتی رہیں جنہوں نے اس نظام کو للکارا۔ لیکن سرمایہ داری کے اندر کی جانے والی اصلاحات‘ جن کے پیچھے محنت کش طبقے کی طویل جدوجہد کارفرما تھی‘ زیادہ تر مغرب کے ترقی یافتہ ممالک تک ہی محدود رہیں۔ یقینا ان سماجوں میں سماجی ترقی اور بہتری ہوئی‘ لیکن اس سے وہ آزادی اور برابری حاصل نہیں ہوئی‘ جو 1789-93ء کے انقلاب فرانس کا نعرہ تھا۔ نہ ہی محنت کش طبقات کی محرومی اور بیگانگی کا خاتمہ ہوا۔ عوام کو خاموش کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں دی جانے والی مراعات اور سہولیات کا ایک مقصد ایک صحت مند اور ہنرمند لیبر فورس کی تشکیل بھی تھا‘ تاکہ محنت کی پیداواریت (Productivity) میں اضافے سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہوسکے۔ مغرب میں سرمایہ دارانہ انقلابات نے جن تاریخی فرائض کی ایک حد تک تکمیل کی وہ نئی قومی ریاستوں کا قیام‘ بادشاہتوں اور جاگیرداری کا خاتمہ‘ مذہب کی ریاست سے علیحدگی اور پارلیمانی جمہوریت پر مبنی سیاسی ڈھانچوں کی تشکیل تھی۔ اس نام نہاد جمہوری سیاست میں قدامت پرست اور اصلاح پسند نمائندے مل کر سماج میں موجود غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ قومی خودمختاری کی سوچ اور قوم پرستی بطور نظریہ اس سرمایہ دارانہ ریاست کی بنیاد تھی۔ یہ 'قومی جمہوری انقلابات‘اُن صنعتی انقلابات کی معاشی بنیادوں پر کھڑے تھے جنہوں نے اتنی قدر زائد یا اضافی دولت پیدا کی جس سے وہ سماجی اور مادی انفراسٹرکچر تعمیر ہوا جس پر جدید سماج قائم ہو سکتا تھا۔ تمام تر جبر و استحصال کے باوجود اُس دور میں سرمایہ داری کا تاریخی کردار نسبتاً ترقی پسندانہ تھا۔
تاہم پیداوار میں اس تیز نمو کے نتیجے میں جلد ہی قومی منڈیاں کم پڑنا شروع ہوگئیں۔ زائد پیداوار کے بحرانوں نے جنم لیا‘ شرح منافع گرنے لگی۔ تاریخی طور پر ایک نظام کی حیثیت سے سرمایہ داری کی بنیادی قوت محرکہ اور جوہر صرف منافع نہیں ہے بلکہ سرمایہ دار طبقہ کو اپنی شرح منافع میں مسلسل گراوٹ کے رجحان سے نبرد آزما رہنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک خاص عرصے کے بعد قومی ریاست سرمایہ داری کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھی۔ یوں قومی حدود سے باہر سرمائے کی برآمد شروع ہوئی۔ اس سے انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز پر جدید شکل کی سامراجیت کی تشکیل ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ خطوں کی منڈیوں اور وسائل پر قبضوں کے لئے بڑی سامراجی طاقتوں کا ٹکرائو شروع ہوا۔ تکنیکی اور صنعتی پیش رفتوں کا زور جنگی صنعت کی طرف مرکوز ہونے لگا۔ شروع میں تو یہ صرف قومی جنگوں کے لئے تھی لیکن پھر غیر ترقی یافتہ ممالک کی نوآبادکاری کی لازمی ضرورت بن گئی۔ منڈیوں پر قبضوں کے لئے متحارب سامراجی طاقتوں کے درمیان جنگ نے نہ صرف براہ راست شکل اختیار کرلی ‘بلکہ یہ جنگیں ایسے دورافتادہ خطوں میں لڑی جانے لگی جو ان طاقتوں کے اہداف تھے۔ پسماندہ خطوں کے عوام کو محکوم بنانے کی ایک اندھی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ متحارب سامراجی ریاستوں کے درمیان یہ مقابلہ بازی اور جنگ سرمایہ داری کی ناگزیر پیداوار تھی جس میں طاقتوں کا توازن بھی تبدیل ہوتا رہا۔
لیکن سرمایہ داری کے تحت صنعتی انقلابات کرہ ارض کے صرف ایک تہائی حصے پر ہی مکمل ہوسکے۔ جبکہ دو تہائی خطے ابھی تک ارتقا کے مختلف پسماندہ مراحل میں تھے۔ نوآبادیات کے عوام کی سامراجیت کے خلاف جرأت مندانہ جدوجہد کو جدید ہتھیاروں کے ذریعے وحشیانہ طریقے سے کچلا جاتا رہا۔ لینن نے اس عمل کو اپنی شاندار کتاب 'سامراجیت:سرمایہ داری کی آخری منزل‘ میں واضح کیا ہے‘ ''سرمایہ داری مٹھی بھر 'ترقی یافتہ‘ممالک کے ذریعے دنیا کی آبادی کی بڑی اکثریت کو نوآبادیاتی اور مالیاتی جبر سے کچلنے کے ایک عالمی نظام کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ قدرتی وسائل غریب اور غیرترقی یافتہ ممالک سے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب بہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک‘ غیر ترقی یافتہ ممالک کی قیمت پر دولتمند بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ غریب ممالک کی عالمی معیشت کیساتھ جڑت کی مخصوص نوعیت ہے‘‘۔اگرچہ ولندیزی‘ ہسپانوی‘ پرتگالی‘ فرانسیسی اور دیگر سامراجی طاقتوں نے نام نہاد 'تیسری دنیاکے متعدد حصوں پر قبضہ کیا ہوا تھا لیکن برطانوی سامراجیوں کے مقبوضہ خطے سب سے وسیع و عریض تھے۔ 1922ء میں برطانوی سلطنت کرۂ ارض کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر محیط تھی‘ جس کی آبادی 458 ملین تھی۔ ان خطوں میں انسانی محنت‘ زرعی اجناس اور قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کو سرمایہ دارانہ معیشت کو ترقی دینے اور حریف سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی عسکری طاقت کو مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ درحقیقت آج یورپ کے بیشتر ممالک کی ترقی اور جاہ و جلال کئی صدیوں پر محیط نوآبادیاتی اور سامراجی لوٹ مار کا ہی مرہون منت ہے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کا سورج غروب ہونے لگا‘ جیساکہ تاریخ میں بڑی طاقتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ نئی ابھرنے والی سامراجی طاقت امریکہ تھی جسے عالمی سرمایہ داری کے پولیس مین کی حیثیت حاصل تھی‘ تاہم ایک صدی سے بھی کم عرصے میں امریکی سامراج بھی آج روبہ زوال ہے۔ معاشی طور پر یہ عالمی تھانیدار کا کردار مزید ادا کرنے سے قاصر ہوتا جا رہا ہے اور زوال پذیر معیشت کے تحت اس کی عسکری دھونس بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر اس کی دھاک کو چین اور دوسری طاقتیں للکار رہی ہیں۔ مسلسل عسکری شکستوں‘ ریکارڈ قرضوں اور تجارتی خساروں نے اس کی سامراجی طاقت کو کند کردیا ہے۔ تاہم سرمایہ داری کے تاریخی زوال اور متروکیت کے اس عہد میں چین کا بظاہر بڑھتا ہوا عالمی تسلط اور غلبہ بھی اندر سے کھوکھلا ہے۔ آج یہ نظام تاریخ میں کبھی نہ دیکھے گئے انتشار اور عدم استحکام کو جنم دے رہا ہے۔ آٹھ افراد کے پاس سیارے کی آدھی آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ دولت کا یہ ارتکاز مسلسل بڑھ رہا ہے‘ جس کا ناگزیر مطلب انسانوں کی اکثریت کی تنگی اور محرومی میں اضافہ ہے۔ لیکن سرمایہ داری کو انسانیت کا مقدر قرار دینا انسان کی محنت اور ذہانت کی تضحیک ہے۔ پہلے تمام نظاموں کی طرح اس نظام کو بھی قصہ ماضی بننا ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت‘ منافع اور منڈی کی جگہ اشتراک اور انسانی فلاح کی معاشی منصوبہ بندی کو لینی ہے۔ انسانیت کے لئے آگے بڑھنے کا یہی ایک راستہ ہے۔