''امریکہ کی صدی‘‘ کا اختتام ہو رہا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام پر جشن میں کچھ امریکی نظریہ دانوں نے تو ''تاریخ کے خاتمے‘‘ کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن اب دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سرمایہ داری کے عروج کے خاتمے کی شروعات نظر آ رہی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے 1974ء تک کے 25 سالوں میں فوجی سرمایہ کاری، نئی ٹیکنالوجی اور نجکاری کے ذریعے معاشی نمو جاری رکھی گئی۔ اس کے بعد ڈاٹ کام کا بلبلہ اور پھر پیچیدہ سٹہ بازی اور جوئے کا عہد 2008ء کے کریش پر منتج ہوا۔
ویتنام جنگ کے دھچکے اور سونے کے متبادل کے خاتمے کے بعد ڈالر مسلسل مضبوط ہوتا رہا ہے۔اب اس کی بالا دستی کو خطرہ لاحق ہے۔ شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کے باعث پیداواری سرمایہ کاری کی شدید قلت ہے، جس سے بہت بڑا زائد سرمایہ مجتمع ہو چکا ہے جو منافع کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔ اسے اسلحہ کی صنعت میں کچھ جگہ ملی، پھر ڈاٹ کام بلبلہ، پھرمعاشی طور پر نامعقول نجکاری اور ریاست کو نوچنے کے بعد جوا اور سٹہ بازی اور دیو ہیکل کریش ہوا جس سے انتہائی دولت مند افراد کی جانب مزید دولت منتقل ہوئی ہے۔ مقداری آسانی سے بینکوں کے پاس بے پناہ زائد قرض آ چکا ہے اور پیداواری سرمایہ کاری کے مواقع مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔
ماضی میں یہ سب کساد بازاری اور جنگوں کا موجب بنتا رہا ہے۔ امریکی سامراج کے زوال کے باعث تنائو میں اضافہ ہوا ہے اور مشرق وسطیٰ سے لے کر جزیرہ نما کوریا تک لمبے عرصے سے چلتی کشیدگیاں پھر سے سامنے آ گئی ہیں۔ روس نے جارجیا میں جنگ جیت کر کریمیا کو ضم کر لیا اور مشرقی یوکرین پر کنٹرول حاصل کیا جبکہ امریکہ بے بسی سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں پر 1.6 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی عراق کا کنٹرول عملی طور پر ایران کے حوالے کرنا پڑا اور افغانستان پر بڑی حد تک طالبان کا غلبہ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہیجان ہے، جیسا کہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے بلقان میں تھا۔ امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں بے بس ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق اور لیبیا میں مداخلت کے بر عکس شام میں وہ محض تماشا دیکھ رہا ہے۔ لیکن شام میں داعش، النصرہ اور دوسرے پراکسی جہادی گروہوں اور صیہونی جارحیت کے مقابلے میں اسد شاید سب سے کم رجعتی قوت ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے خطرناک انداز میں ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا ہے، اسرائیل میں سفارتخانہ یروشلم منتقل کر کے اشتعال انگیزی کی ہے اور جزیرہ نما کوریا میں جنگ کے خطرے کو بھڑکا دیا ہے، اگرچہ اب بظاہر وہ اس سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ملک کے اندر سیاہ فام اور لاطینی اقلیتوں کے ساتھ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے اور جان بوجھ کر ملک کے اندر دہشت گردی اور باہر دوسرے ممالک مثلاً شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے۔ اور مستقبل میں چین کے ساتھ تصادم کے اشارے بھی دئیے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ممکنہ طور پر تباہ کن تجارتی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور امریکہ نے اپنے ''اتحادی‘‘ کینیڈا اور یورپ کے سٹیل اور ایلومینیم پر محصولات (ٹیرف) عائد کر دیے ہیں اور وہ چین میں روبوٹکس، ہوابازی، بجلی سے چلنے والی گاڑیوں ، مصنوعی ذہانت (AI) اور بائیوٹیک کی جدید مینوفیکچرنگ کو روکنا چاہتا ہے۔
واشنگٹن میں موجودہ انتظامیہ بدحواس، ظالم اور احمق ہے جس کی قیادت ایک کارٹون کر رہا ہے جو پیوٹن کی مجرمانہ حکومت کے ساتھ بد عنوانی میں ملوث ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مین سٹریم اسٹیبلشمنٹ خود بھی خفیہ جنگوں اور مسلسل ڈرون حملوں میں ملوث رہی ہے۔وہ ٹرمپ حکومت کی نافرمانی اور کرپٹ حرکتوں سے پریشان ہیں لیکن ان کی جانب سے ناتواں قسم کی مخالفت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی پوشیدہ طاقت کے ذریعے ٹرمپ کو نکال باہر کرنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ یہ امریکی سامراج کو درپیش مسائل کا سیاسی اظہار ہے۔
گزشتہ بیس برسوں میں چین کے جی ڈی پی میں 1200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اب دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک ہے۔ اگلے12-15 سالوں میں چینی معیشت امریکہ سے آگے نکل جائے گی۔
چینی معاشی قوت عالمی منظر نامے پر خود کو منوا رہی ہے۔مشرقی ایشیا میں اس کا اثر رسوخ بڑھ رہا ہے اور فلپائن میں امریکی کنٹرول کی جگہ لے رہا ہے۔ ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے سے وسطی ایشیا کے سابقہ سوویت ممالک میں بھی بالادستی بڑھ رہی ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں بھی یہی کیفیت ہے۔ افریقہ میں چین ریلوے اور بندر گاہیں تعمیر کر رہا ہے اور جبوتی میں بحری فوج کی بیس بھی بنا چکا ہے۔
بیورو کریٹک انتظام میں چینی معیشت کی بے پناہ ترقی کے پیچھے کئی عوامل کا امتزاج تھا۔ انقلاب نے جاگیر داری کا خاتمہ کیا اور کروڑوں انسانوں کو جاگیر داری کی جکڑ بندی سے آزاد کر کے محنت کشوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ پا لیا۔ لیکن یہ 1949ء کے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی منصوبہ بند معیشت تھی جس نے بنیادی مادی و سماجی انفراسٹرکچر اور نسبتاً صحت مند اور ہنر مند محنت کش طبقے کو جنم دیا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر آج کا نام نہاد 'چینی معجزہ‘ کھڑا ہے۔ چین اور ہندوستان جیسے ممالک کے سرمایہ دارانہ ارتقا کے درمیان یہ بنیادی فرق ہے۔ گلوبلائزیشن سے بڑے پیمانے پر صنعت کاری کے حالات میسر آئے جو کہ ریاستی انتظام اور منصوبہ بندی کے تحت تھی۔ نتیجتاً ایک ایسا سماج قائم ہوا جو بہت بلند سطح پر 1920ء کی دہائی میں روس میں نافذ ''نیو اکنامک پالیسی‘‘ (NEP) جیسا ہے جب خانہ جنگی کی تباہی کے بعد نجی کاروباریوں (NEPMEN) اور سرمایہ دار کاشتکاروں (Kolaks) کو لائسنس جاری کئے گئے تھے۔ یہ ''ریاستی سرمایہ داری‘‘ کی حقیقی شکل تھی جس میںریاستی بیوروکریسی کی بالادستی اور مقرر کردہ حدود میں نجی کاروبار موجود تھا؛ تاہم چین کی 'نیو اکنامک پالیسی‘ بہت آگے بڑھ کر سرمایہ داری کی بحالی پر منتج ہوئی ہے جبکہ سوویت یونین میں اس پالیسی کا راستہ بروقت روک دیا گیا تھا۔ لیکن بالآخر سٹالنسٹ ریاستی کنٹرول اور تیزی سے ابھرتے سرمایہ دار طبقے کے مابین تضادات کسی ایک فریق کے حق میں ہی ختم ہو سکتے ہیں اور اس میں ہنگامہ خیز واقعات نا گزیر ہیں۔
چینی پرولتاریہ کے ابھار سے چینی سماج کی بنیادیں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ محنت کش طبقہ مزید یکجا، مضبوط اورمناسب معیارِ زندگی کی جدوجہد میں مزید لڑاکا ہوا ہے۔ چین میں 10 کروڑ سے زیادہ صنعتی مزدور ہیں۔ یہ جی 7 ممالک کے مجموعے سے بھی دگنے ہیں۔ ماضی کے کروڑوں کسان اب شہری محنت کش ہیں۔ 2020ء تک شہری آبادی کا تناسب60فیصد تک پہنچ جائے گا۔
2014-15ء کے دوران ملک بھر میں4000 احتجاج ریکارڈ کیے گئے جن میں 1000 ہڑتالیں بھی شامل ہیں۔ ستمبر2017ء سے فروری 2018ء تک محنت کشوں نے 900 سے زیادہ دھرنے، کام کی جگہ کی ناکہ بندی اور مظاہرے کیے۔ ان میں تعمیرات، کانکنی، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ، خدمات، تعلیم اور ریٹیل کے شعبے شامل ہیں۔ مئی2018ء میں پہلی مرتبہ کرین آپریٹرز اور وین ڈرائیورز نے ملک گیر ہڑتال کی۔ 2015-17ء کے دوران 6,694 ہڑتالیں رپورٹ ہوئی ہیں ‘ جن میں تمام شعبوں کے مزدور شامل تھے۔
صنعتی شعبے میں بڑھتی ہوئی ہڑتالوں کے ساتھ سماجی حقیقتوں کا شعور بھی واضح ہوا ہے۔ 2013ء میں ٹائم میگزین میں مائیکل شومین نے لکھا کہ ''امیر اور غریب کی تفریق چین میں شایدسب سے زیادہ خطر ناک ہے۔‘‘ چین میں ایک جائزے کے مطابق 80 فیصد لوگ اتفاق کرتے ہیں کہ ''امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے ہیں۔‘‘ دولت کی تقسیم کی اتنی زیادہ تفاوت بغاوت کے شعلے سلگا رہی ہے۔ صنعتی شہر شنزن کے ایک فیکٹری مزدور کے مطابق''تمام محنت کشوں کو متحد ہونا ہو گا۔ امیر لوگ مزدوروں کا استحصال کر کے مال بناتے ہیں... ہم کمیونزم کی جانب دیکھ رہے ہیں۔‘‘