"DLK" (space) message & send to 7575

پاک ایران تعلقات

وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ ایران سے جہاں بہت سے معاملات طے ہوئے وہاں اس نے بہت سے سوالات کو جنم بھی دیا ہے۔ ایسے بہت سے مسائل جو ایک طویل عرصے سے در پردہ زیر بحث تھے وہ بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب اور امارات سے قرضے اور امدادی رقوم کے حصول کے لیے تو دوسری طرف آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں سے پیکیج اور سخت شرائط پر قرضے لینے کے لیے پاکستان کا امریکی‘ سعودی اتحاد کا حصہ بننا مجبوری بنتا جا رہا ہے۔ حالیہ اسرائیلی انتخابات میں انتہا صہیونی وزیر اعظم کی مہم اور اس کی جیت میں امریکہ نواز دھڑے کا ایک کلیدی کردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے امریکہ کے سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا پھر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے بعد ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دیں، پھر 1967ء سے شام کے اسرائیلی مقبوضہ گولان کے پہاڑی علاقے کو اسرائیل کا جغرافیائی حصہ قرار دیا اور چند روز قبل انہوں نے ایران کی ایلیٹ فورس اسلامی انقلابی گارڈز کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا جبکہ 21 اپریل کو ان ممالک کو چھوٹ دینے سے انکار کر دیا جو ایران سے تیل درآمد کرتے ہیں۔ ان میں چین، بھارت ، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی شامل ہیں۔ 
گوکہ ایٹمی سمجھوتے سے روس اور یورپی ممالک نے دستبرداری سے انکار کردیا ہے لیکن ڈالر کے عالمی کرنسی ہونے اور امریکہ کے دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کی وجہ سے ایران کی معیشت اور سماجی حالات پر بہت ہی نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکمرانوں نے ایران پر حملے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ اس کے جواب میں ایرانی حکمرانوں نے بھی جنگی تیاری اور سفارتی وسیاسی محاذوں پر بیان بازی تیز کردی ہے۔ انہوں نے اپنا کمانڈر انچیف بھی تبدیل کر دیا ہے جس نے بیان دیا کہ اگر ایران کے تیل کی برآمد اور سپلائی کو روکا گیا تو پھر آبنائے ہرمز کو ایرانی افواج بند کردیں گی اور کسی کا تیل بھی اس سمندری پٹی سے گزرنے نہیں دیں گی۔ اسی طرح لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ، جو پہلے سے ہی ایک طاقتور عسکری قوت ہے، کو ایرانی میزائل دیئے جانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ بیان بھی داغا گیا ہے کہ ایسے تین سو میزائل اسرائیل کے ہر شہر کو کھنڈر بنا دیں گے۔ اس تنائو کے عالم میں پورے خطے کی صورتحال بہت سنگین ہو رہی ہے جس کے باعث آنے والے وقت میں ایک خوفناک جنگی تصادم کے اندیشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ 2014ء میں نواز شریف حکومت نے پاکستانی فوجیوں کو سعودی عرب بھیجنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اب لگتا ہے کچھ قوتیں پاکستان کو ایران دشمن اتحاد میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ دورہ بہت ہی غیر معمولی تھا۔ پچھلے چند ہفتوں میں ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہوئے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور ایران میں افواج کے اہل کاروں کی دہشت گردانہ حملوں میں شہادت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایران ایک بڑی فوجی طاقت ہے اور اس سے پاکستان کا کوئی بھی عسکری تصادم بہت تباہ کن مضمرات کا باعث بنے گا۔ اسی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود کے مطابق اورماڑہ کا دہشت گردانہ حملہ ایران سے ہوا تھا جس میں پاکستان نیوی کے کچھ اہلکار نشانہ بنائے گئے تھے۔ ایرانیوں نے بھی تمام حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔ 
دوسری جانب بھارت اور ایران کے درمیان تعلقات میں طویل عرصے سے نیم گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کا بھارتی حکومت اور خصوصاً نریندر مودی کی امداد سے بنایا جانا اور اس کا بھارتی تجارت کے لئے استعمال ہونا ان تعلقات کا ایک ٹھوس اظہار ہے۔ کئی سالوں سے ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی جاری تھا لیکن کچھ عرصے سے امریکی دبائو کے تحت اس کو ٹھپ کر دیا گیا ہے۔ لیکن ایرانی حکام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مودی کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی اچھے تعلقات ہیں اس لیے وہ پاکستان سے مکمل طور پر بگاڑنا نہیں چاہتے۔
عمران خان کے اس دورے کو لگتا ہے پاکستانی ریاست کی مکمل حمایت حاصل ہے‘ ہونی بھی چاہئے کیونکہ افغانستان اور بھارت سے کشیدہ تعلقات میں ایران کے ساتھ کسی قسم کا تصادم ناقابل برداشت ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بیان بھی دے ڈالا کہ پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے جس کو اب بند کیا جائے گا۔ اسی طرح دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے علاقوں کوایسی کارروائیوں سے پاک کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔عمران خان پر اس دورے کے سفارتی دباؤ کا اعصابی تناؤ ہی جاپان‘ جرمنی کی مشترکہ جغرافیائی سرحدکے لطیفے کا باعث بنا۔ لیکن لگتا ہے کہ اب خطے کی دوسری طاقتوں اور امریکہ نواز دھڑے کا دبائو پاکستان پر بھی آئے گا۔ اس کا سامنا کرنا ان حکمرانوں کے لئے بہت کٹھن ہو گا لیکن داخلی عوامی بغاوتوں کے خطرے کو ٹالنے کے لئے ایسے خارجی تضادات ابھارنے کا حکمرانوں کا ہتھکنڈا بہت پرانا ہے۔ اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کے خلاف نہ صرف سنگین کرپشن کے مقدمات تھے بلکہ اس کی معاشی پالیسیوں سے اس کی لکود پارٹی کو شکست کا بھی سامنا تھا ۔ایسے میں نریندرمودی اور بی جے پی کی طرح اس نے بھی مذہبی اور قومی خطرے کا واویلا کرکے یہ الیکشن جیتا۔ یہاں تک کہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے اسرائیلی آباد کاروں کی کالونیوں کو قانونی قرار دیا اور غزہ و مغربی کنارے میں عام فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہے۔ لیکن لمبے عرصے میں یہی شائونزم اسرائیلی صہیونیت کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا کیونکہ اتنے جبر اور درندگی کے خلاف جو عوامی بغاوتیں اٹھتی ہیں وہ بھی بے پناہ طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہیں۔ علاقے کی بعض بادشاہتوں کو بھی مقامی عوام اور محنت کش طبقے سے سنگین خطرات محسوس ہو رہے ہیں۔ اسی لیے جہاں مصر جیسے ممالک میں فوجی آمریت کا جبر شدت اختیار کر گیا ہے وہاں عوام میں باغیانہ رجحانات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایران میں1979ء سے اب تک اشرافیہ کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئی ہیں۔ ان 40 سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس عرصے میں شاید ہی کوئی ایسا وقت آیا ہو جب امریکہ، عراق، سعودی عرب یا کسی اور بیرونی ملک یا طاقت سے ایران کا تنازعہ، تنائو اور تصادم نہ چل رہا ہو۔ یہاں بھی اقتدار اور دولت کی حاکمیت کو جاری رکھنے کا طریقہ وہی پرانا ہے۔ 
پاکستان میں معاشی بربادی اور عوام پر ہونے والے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حملوں کی انتہا ہو رہی ہے۔ بغاوت یہاں سے بھی پھوٹ سکتی ہے۔ 2011ء کے بعد عرب خطے میں پھر سے عوامی بغاوتوں کے ریلے بہہ نکلے ہیں۔ الجزائر اور سوڈان میں جابر حکمرانوں کے تختے الٹ دیے گئے ہیں۔ مراکش میں تحریک زور پکڑ رہی ہے۔ دوسرے ممالک اور معاشروں میں بھی ایک ہلچل اور سلگتی ہوئی بغاوت محسوس کی جا سکتی ہے۔ جہاں یہ سرمایہ دار حکمران قومی، مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگوں کے خطرات سے اپنی حاکمیت کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں طبقاتی جدوجہد کی نئی اٹھان اس نظام کو بدلنے کی کشمکش کو تیز کر رہی ہے۔ اس خطے کے عوام کی لڑائی طبقاتی جنگ ہے‘ قومی اور مذہبی جنگوں میں عوام کی محض بربادی ہو گی۔ اسی طبقاتی جدوجہد کی کسی ایک ملک میں سوشلسٹ فتح محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں کی کامیابیوں کی راہیں کھولے گی اور خطے میں بربادیوں‘ ذلتوں اور محرومیوں کے خاتمے سے عمل کا آغاز ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں