آج منعقد ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات جہاں کئی لحاظ سے اہم اور تاریخی ہیں وہاں ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دفعہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی وہ سیاسی جماعتیں جنہیں ان کے نظریات اور مطالبات کی بنا پر قوم پرست کہا جاتا ہے، انتخابات میں بھر پُور حصہ لے رہی ہیں۔ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) یعنی بی این پی (ایم) بھی شامل ہے جس کی قیادت سردار اختر مینگل کے پاس ہے جو اپنے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی طرح صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چُکے ہیں۔ 2008ء میں بی این پی (ایم) نے دیگر بلوچ اور پختون پارٹیوں کے ہمراہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔بائیکاٹ کی وجہ مشرف دور میں بلوچ عوام سے کی جانے والی زیادتیاں تھیں جن میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت بھی شامل تھی۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی ،پاکستان مسلم لیگ (ق)اور جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمن گروپ)پر مشتمل ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی۔اس مخلوط صوبائی حکومت کی سربراہی وزیراعلیٰ سردار اسلم رئیسائی کے ہاتھ میں تھی جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ بلوچستان کی تاریخ میں رئیسانی حکومت سے زیادہ کمزور اور غیر مؤثر حکومت شاید ہی کوئی گزری ہو۔اس حکومت کے دور میں صوبے میں لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال اس قدر مخدوش ہو گئی تھی کہ سپریم کورٹ کو اس صورتِ حال کا ازخود نوٹس لینا پڑا اور اپنے فیصلے میں صوبائی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اسے ایک ناکام حکومت قرار دیا۔ گذشتہ پانچ برسوں میں بلوچستان میں شورش میں اضافہ ہوا۔ پہلے لوگ رات کے اندھیرے میں غائب ہوتے تھے‘ اب دن کے اُجالے میں بھی سیاسی کارکنوں کو اُن کے گھروں،بازاروں اور کالجوں سے اغوا کرنا شروع کر دیا گیا جن کی لاشیں کچھ عرصہ بعد صوبے کے ویران علاقوں میں پڑی ہوئی ملتی تھیں۔بلوچستان میں گم شدہ افراد کا مسئلہ اب بھی اہم اور نازک ہے لیکن رئیسانی حکومت کے دور میں تو اس کی انتہا ہو گئی تھی۔ ترقیاتی کام تو درکنار حکومت شہریوں کی جان ومال کو تحفظ دینے میں بُری طرح ناکام رہی جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اِن حالات کے اگرچہ بہت سے محرکات ہیں تاہم یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں حالات اس لیے بے قابو ہو گئے تھے کیوں کہ 2008ء کے انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا اور اس طرح ایک صحیح نمائندہ حکومت وجود میں نہ آسکی۔ جب بی این پی (ایم) کے ہمراہ بلوچستان کی دیگر قوم پرست جماعتوںنے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو ملک کے تمام سیاسی حلقوں نے اس اُمید پر فیصلے کا خیر مقدم کیا کہ انتخابی عمل میں بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی شرکت سے صحیح معنوں میں ایک نمائندہ اور موثر حکومت معرضِ وجود میں آئے گی۔ حال ہی میں بی این پی(ایم) نے اپنا انتخابی منشور پیش کیا ہے جو زیادہ تر اُن مطالبات اور تجاویز پر مشتمل ہے جن پر پارٹی کی قیادت کے مطابق عمل کر کے بلوچستان کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔یہ منشور دراصل قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ایک چارٹر آف ڈیمانڈز ہے جن میں بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں قوم پرست جماعتوں کے نکتہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اس منشور میں بلوچستان اور مرکز کے درمیان تعلقات کو از سرِ نو مرتب کرنے کی تجاویز شامل ہیں اوربعض مطالبات کا تعلق بلوچستان کے حقوق سے ہے جن کے بارے میں بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں اکثر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ اس منشور میں کہا گیاہے کہ بی این پی (ایم) برسرِاقتدار آکر بلوچستان کے تمام قدرتی وسائل پر صوبے کے عوام کے حقوق کو تسلیم کرے گی۔خصوصاََ صوبے کے ساحلی علاقوں میں موجود تمام و سائل جن میں فشنگ انڈسٹری شامل ہے‘ بلوچستان کے عوام کی تحویل میں دے دئیے جائیں گے۔ منشور میں جہاں بلوچستان کو درپیش فوری مسائل‘ جیسے گم شدہ افراد کی بازیابی، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی،ذرائع آمدورفت اور صنعتوں کی ترقی اور صوبے کے ہرحصے میں بجلی اور گیس کی فراہمی کے حل کا وعدہ کیا گیا ہے وہاں دور رس مضمرات کی حامل خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات جیسے مسائل پر بھی نکتہ نظر بیان کیا گیا ہے۔یہاں اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ خارجہ پالیسی خصوصاََ افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں بلوچ قوم پرست سیاسی پارٹیوں کی ایک مخصوص سوچ رہی ہے۔ اُنہوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ پُر امن اور دوستانہ تعلقات کی حمایت کی ہے اور اُن کی طرف سے ہمیشہ یہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں پاکستان کو اُلجھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔منشور میں خارجہ پالیسی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے اس موقف کا اظہار کیا گیا ہے کہ بی این پی ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کی حمایت کرے گی۔ منشور میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور سماجی تعلقات کو فروغ دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ پاکستانی آئین کے تحت صوبے بیرونی ممالک کے ساتھ براہ راست تجارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں تاہم اس کیلئے اُنہیں وفاقی حکومت کی اجازت لیناضروری ہے۔اس لیے اگر بی این پی(ایم)کے منشور میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے اور سماجی رشتے مستحکم کرنے کی بات کی گئی ہے تو اُس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ان مطالبات کا تعلق صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود کفیل بنا کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنانا ہے۔اس اصول کو اٹھارویں آئینی ترمیم میں وضاحت کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے معدنی اور قدرتی وسائل پر صوبے کے عوام کے حق کو تسلیم کرنے پر اصرار ایک جائز مطالبہ ہے۔ منشور میں ایک راہ نکالنے کی کوشش کی گئی ہے جس پر چل کر مرکز اور بلوچستان کے درمیان بدگمانی،شکوک و شبہات پر مبنی فضا کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں یعنی بی این پی،نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی نے ایسے وقت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جب صوبے میں انتہا پسند عناصر نہ صرف انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں بلکہ سیاسی جلوسوں،جلسوں اور پولنگ سٹیشنوں کو بموں اور راکٹوں کا نشانہ بنا کر پورے انتخابی عمل کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس سنگین چیلنج کی موجودگی میں اعتدال پسند قوم پرست سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے دراصل یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو پاکستان کے آئینی اور قانونی فریم ورک میں حل کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہے اور ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔