"DRA" (space) message & send to 7575

سیلاب اور ہم

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو یا تو خشک سالی اور پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے یا آسمان سے اتنا پانی برستا ہے کہ بستیاں ڈوب جاتی ہیں ‘ کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دریائوں اور نہروں کے آس پاس رہنے والے غریب لوگوں کی کل متاع‘ جس میں گھریلو سامان کے علاوہ مال مویشی بھی شامل ہوتے ہیں‘ پانی میں بہہ جاتی ہے۔ پانچ دریائوں کی سرزمین‘ جس کی خوشحالی کا ذکر دو ہزار قبل مسیح کے زمانے میں فرعون کے دربار میں بھی کیا جاتا تھا‘ کبھی یہ منظر پیش کرتی ہے کہ اس کے میلوں پاٹ والے دریائوں میں خشک ریت کے انباروں کے درمیان پانی کی ایک پتلی سی لکیر نظر آتی ہے جس کے اردگرد آبی پرندے مچھلیوں کی تلاش میں یا لاغر مویشی پیاس بجھانے کی کوشش میں منڈلا رہے ہوتے ہیں‘ اور کبھی سیلاب کا پانی کناروں سے ابل کر ایک وسیع سمندر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔دونوں صورتیں فطرت کی عطا کردہ ہیں جنہیں قدرتی آفات کا نام دیا جاتا ہے۔انسان کا شروع سے ہی ان سے واسطہ رہا ہے‘ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان نے اپنی ذہانت سے ان پر قابو پانا بھی سیکھ لیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایسا کرنا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔دنیا کا کوئی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جہاں کہیں قوموں نے ان کے خلاف منصوبہ بندی کی ‘ماضی کی غلطیوں اورتجربوں سے سبق سیکھا اور پورے خلوص ‘ تندہی اور توجہ کے ساتھ ان آفات کو روکنے یا ان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی‘وہاں انسانی اور مالی نقصان کم ہوا۔اور جہاں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ‘حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کی سلامتی کی بجائے اپنی آسائشیں اور تن آسانی اولین حیثیت رکھتی ہو‘ وہاں قدرتی آفات کے ہاتھوں نقصان کی صورت حال وہ ہے ‘جو آج کل سیلاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
2010ء میں آنے والے سیلاب کے ہاتھوں ہونے والے نقصانات‘ہماری سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھے۔ ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا اور پیشگی اقدامات کر کے موجودہ نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ 2010ء کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب کہا جاتا ہے۔عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 1924ء کے بعد یہ اس علاقے میں سب سے بڑا سیلاب تھا جس سے تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 1,677 تھی۔ نقصانات کا تخمینہ 9.7بلین ڈالر بتایا جاتا ہے۔اس میں صرف آب پاشی کے نظام کو 6.5بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔1992ء میں آنے والے سیلاب کو ایک بڑا سیلاب قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن 2010ء کے سیلاب نے 1992ء کے سیلاب سے دوگنا زیادہ نقصان پہنچایا۔2010ء کی تباہ کاریوں کے پیش نظر اس وقت کی حکومت نے عالمی بینک سے ایک جائزہ رپورٹ مرتب کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ مستقبل میں اس قسم کے سیلاب کے نقصان سے بچا جا سکے۔اور ضروری اقدامات کیے جائیں۔
عالمی بینک نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے ایک جامع رپورٹ پیش کی‘ جس میں سیلاب کی وجوہ کے علاوہ مستقبل میں اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے تدابیر بھی پیش کی گئی تھیں۔اس رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ سیلاب کو محض شدید بارشوں اور پانی کے ریلوں تک محدود کر کے تجزیہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کے سیاسی‘معاشی ‘ سماجی اورماحولیاتی پہلوئوں کو زیر بحث لا کر ہر سیکشن سے متعلق تجاویز بھی پیش کی گئیں۔مثلاً رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے قومی پالیسیوں میں تواتر کا پہلو غائب رہا ہے۔ کوئی حکومت خصوصاً کوئی بھی سویلین حکومت اس اہم مسئلے کے حل کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی نہ کر سکی۔ نہ ہی حکومتیں مناسب پالیسیاں وضع کر سکیں‘ کیونکہ ہر حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ ان میں افغانستان‘بلوچستان میں بدامنی اور فاٹا میں طالبان دہشت گردی جیسے مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2007ء کے بعد مقامی حکومتوں کے اداروں کے انتخابات نہیں کروائے گئے۔ منتخب مقامی حکومتوں کے نظام کی موجودگی میں مقامی طور پر سیلاب سے نبرد آزما ہونے کے لیے جو اقدامات کیے جا سکتے تھے‘وہ نہیں کیے گئے۔پنجاب کے نظام آب پاشی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا کہ دنیا میں سب سے بڑا اری گیشن نیٹ ورک ہونے کے باوجود اس کی مرمت‘ دیکھ بھال اور بہتری کے لیے جو اقدامات درکار تھے‘ وہ نہیں کیے گئے‘ بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں کے اس قائم کردہ نظام کا سٹرکچر اور فنکشن انہی قدیم اصولوں پر مبنی ہونے کے علاوہ اسی پرانی مشینری کی مدد سے چلایا جارہا ہے۔
ماحولیاتی پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے‘ کسی حکومت نے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔اس طرح سیلاب کو روکنے کے لیے جو قدرتی رکاوٹیں کام آ سکتی تھیں ‘ وہ ختم ہو گئیں۔ان میں درخت اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اگر چار پانچ سال سیلاب کے بغیر گزر جائیں تو اس اثناء میں دریائی علاقوں میں تجاوزات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔دریا کے عین وسط میں فصلیں اگائی جاتی ہیں۔مویشیوں کے باڑے قائم کئے جاتے ہیں اور انسانی بستیاں بسائی جاتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان کو ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی‘ بلکہ امیدوار انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان غیر قانونی اور انتہائی خطرناک مقامات پر کھڑی کی گئی کچی آبادیوں کو گیس اوربجلی کے کنکشن مہیا کرتے ہیں۔ اس کا اعتراف بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے خود ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا ہے۔سیلاب کے دنوں میں ان بستیوں کی وجہ سے نہ صرف جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے‘بلکہ سیلاب کی روک تھام کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے راستے میں رکاوٹیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی اس مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ہر حکومت کے نزدیک سیلاب کی روک تھام کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دریائوں پر بند اور پشتے تعمیر کئے جائیں تاکہ دریائوں میں پانی کی وافر مقدار کو ریگولیٹ کیا جا سکے اور جب پانی کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو بند اور پُشتے توڑ کر کچھ علاقوں کو بچا لیا جائے اور باقی کو ڈبو دیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق یہ حکمت عملی کوتاہ اندیشی اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ اس سے ایک طرف سیلاب کی روک تھام نہیں ہوتی اوردوسری طرف معاشرتی سطح پر منافرت اور نفاق کی منفی قوتیں پروان چڑھتی ہیں کیوں کہ تقریباً تمام صورتوں میں بند توڑ کرشہروں کو بچایا جاتا ہے اور دیہی علاقوں کو ڈبو دیا جاتا ہے۔ ہمارے اس غیر منصفانہ نظام میں دیہی علاقے شہری علاقوں کے مقابلے میں پہلے ہی ہر شعبے میں محرومیت کا شکار ہیں۔ 
رپورٹ میں بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے سفارش کی گئی کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے لیے پورے معاشرے میں آگاہی اور ایمپاورمنٹ (Empowerment) کی مہم چلائی جانی چاہیے اور اس کا آغاز سکول کے بچوں سے کیا جانا چاہیے۔ سیلاب سے بچائو کے طریقے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری احتیاطی اقدامات تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے کمزور طبقے مثلاً عورتوں‘ بچوں اور معذور لوگوں کی مدد کے لیے جو حفاظتی اقدامات ضروری ہیں‘ ان کا اہتمام اور ان سے آگاہی ایک باقاعدہ مہم کا حصہ ہونا چاہیے۔ سیلاب کی طرح قوم کو جب بھی قدرتی آفات کی صورت میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ تو ہر حکومت اس کی ذمہ داری اپنی پیش رو حکومت پر ڈال دیتی ہے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وسائل اور توانائیاں ایسے مسائل حل کرنے میں صرف ہو رہی ہیں جو خود ہمارے پیدا کردہ ہیں۔جب تک ہم ان سے توجہ نہیں ہٹاتے اور قومی ترقی کو ترجیح نہیں دیتے سیلاب کی طرح دیگر قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں