ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں اپریل کے آخری دنوں میں ہونے والے دو اہم واقعات کا نہ صرف تذکرہ بلکہ پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے ان کا تجزیہ کرنا بھی لازمی ہے۔ ایک کا تعلق دو آزاد اور خود مختار ممالک یعنی بھارت اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات سے ہے اور دوسرا واقعہ ایک ملک کے اندرونی حالات یعنی افغانستان میں طالبان کی طرف سے سرکاری افواج کے خلاف کارروائیاں ہیں۔ بظاہر ان دونوں واقعات کا پاکستان کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں‘ کیونکہ افغان صدر اشرف غنی کا دورہ بھارت‘ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سے وابستہ ہے۔ اس طرح موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کی سرگرمیوں میں اضافہ کوئی نئی بات نہیں۔ افغانستان میں ہر سال جب موسم گرما شروع ہوتا ہے‘ تو جنگ میں تیزی آ جاتی ہے‘ کیونکہ سردیوں میں برف اور خراب موسمی حالات کی وجہ سے جنگجوئوں کی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اس لیے اپریل میں طالبان کی طرف سے افغان شہروں اور سرکاری فوج کے ٹھکانوں پر تابڑ توڑ حملے غیر متوقع نہیں۔
اسی طرح صدر اشرف غنی کا دورہ بھارت غیر متوقع نہیں ہے۔ افغانستان کے صدر حلف اٹھانے کے بعد چین‘ پاکستان اور ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔ اور گزشتہ 13برسوں کے دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں جو قریبی تعلقات قائم ہو چکے ہیں‘ ان کے پیش نظر افغانستان کے نومنتخب صدر کے دورہ بھارت کی توقع کی جا رہی تھی۔ بھارت نے افغانستان میں دو بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس نے افغانستان میں کئی ہائی پروفائل منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ان میں پارلیمنٹ کی بلڈنگ‘ ہسپتال اور سب سے اہم شمالی افغانستان کو ایران سے ملانے والی تقریباً ڈھائی سو کلو میٹر لمبی شاہراہ کی تعمیر ہے۔ دونوں ملک ایک معاہدے کے تحت 2011ء سے سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہیں‘ جس کا مقصد تجارت‘ معیشت‘ سکیورٹی ‘ تعلیم‘ صحت‘ زراعت اور صنعت میں باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
لیکن صدر اشرف غنی کے دورۂ بھارت کو جس وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا تھا‘ وہ یہ ہے کہ سابق صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں انہیں پاکستان کا زیادہ حامی سمجھا جا رہا تھا۔ پاکستان کی طرف ان کے جھکائو کے اشارات اس بات سے عیاں ہوتے ہیں کہ چین کے بعد انہو ں نے جس ملک کا سب سے پہلے دورہ کیا وہ پاکستان تھا۔ پاکستان کے دورہ کے دوران میں انہوں نے نہ صرف صدر اور وزیر اعظم پاکستان سے ملاقاتیں کیں بلکہ جی ایچ کیو میں جا کر پاکستان کی عسکری قیادت سے بھی ملاقات کی۔اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان کی ملٹری اکیڈمی میں افغان فوجی افسروں کو تربیت کے لیے بھیجنے کی پاکستانی تجویز بھی منظور کر لی۔مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے نئے صدر کی جانب سے پاکستان کے لیے غیر معمولی گرم جوشی کا مقصد پاکستان کو اس بات کی طرف راغب کرنا تھا کہ وہ افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر مائل کرے‘ تاکہ افغانستان سے بیشتر امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی مخدوش سکیورٹی صورتحال میں امن اور صلح کا قیام ممکن ہو سکے۔ پاکستان کے ساتھ چین کے خصوصی تعلقات کی بناء پر صدر غنی نے چین سے بھی پاکستان پر اس مقصد کے لیے دبائو ڈالنے کی درخواست کی تھی۔ ان کا دورۂ چین اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ بلکہ چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے صدر اشرف غنی کی حکومت نے جہاں ایک طرف چین کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی‘ وہاں چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں سرگرم ان علیحدگی پسندوں کو چینی حکام کے حوالے بھی کیا جو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور افغان حکام نے انہیں جیلوں میں بند کر رکھا تھا۔ اس سال کے آغاز میں اس قسم کی اطلاعات گردش میں تھیں کہ چین کی مداخلت سے پاکستان طالبان پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے اور طالبان بھی موجودہ افغان حکومت کے ساتھ امن بات چیت پر راضی ہو گئے ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق یہ مذاکرات مارچ میں ہونے والے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اور اپریل میں موسم بہتر ہوتے ہی طالبان نے افغانستان حکومت کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق مذاکرات کے اس سلسلے کے شروع نہ ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ افغان حکومت کی طرف سے شرط عائد کی گئی تھی کہ مذاکرات سے پہلے پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی جو مدد کی جا رہی تھی اسے بند کیا جائے۔
افغانستان میں امن اور صلح کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے صدر اشرف غنی پاکستان پر جس حد تک انحصار کر رہے تھے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے پاکستان کی قربت حاصل کرنے کے لیے بھارت سے فاصلہ بڑھا لیا تھا۔ اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے پورے سات ماہ بعد بھارت کا دورہ کیا ہے۔ خود بھارتی میڈیا میں بھی انہیں پاکستان کا حامی بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں خود ان کی اپنی حکومت کے کچھ حلقے ان کی پاکستان پر انحصار کرنے کی پالیسی پر تحفظات رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ سابق صدر حامد کرزئی کی کوششوں کا حوالہ دیتے تھے‘ جنہوں نے اپنے تیرہ سالہ دور حکومت میں بیس مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا؛ تاہم صدر اشرف غنی نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے رویے میں مثبت تبدیلی کے آثار دیکھ کر افغانستان میں امن اور صلح کے عمل کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں پاکستان کے بھر پور کردار پر انحصار کا فیصلہ کیا۔
لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے ۔ ایک دفعہ پھر پاکستان اور افغانستان میں الزام اور ردِ الزام کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔افغانستان کی موجودہ حکومت کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سے جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں داخل ہو کر سرکاری افواج پر طالبان کے حملوں میں شرکت کر رہی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی امریکی ذرائع کے حوالے سے اس قسم کی اطلاعات شائع کی ہیں۔ حالانکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پاکستان سے افغانستان میں جنگجوئوں کے داخلے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
صدر اشرف غنی نے بھارت میں جو بیانات دیے ہیں ان سے بھی ان کی مایوسی ٹپکتی ہے۔ مثلاً انہوں نے نہ صرف افغانستان میں بلکہ جنوبی ایشیا کے خطے میں دہشت گردی کے خلاف بھارت کے کردار کی اپیل کی ہے۔ سب سے اہم بیان ان کا پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت کو بھارت تک توسیع دینے کا مطالبہ ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنے کی بھارتی خواہش بڑی پرانی ہے لیکن پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا اور بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہوتے‘ بھارت کو یہ سہولت مہیا نہیں کی جا سکتی۔ لیکن صدر اشرف غنی نے نہ صرف بھارتی موقف کی حمایت کی ہے بلکہ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے لیے واہگہ کے راستے مال لانے والے افغان ٹرکوں کو واپسی پر افغانستان کے لیے بھارتی برآمدات لے جانے کی اجازت دے‘ ورنہ افغانستان ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے راستے بھارت سے تجارتی سامان منگوانا شروع کر دے گا۔ بھارت نے ایران اور افغانستان کے ساتھ مل کر پہلے ہی اس تجارتی راہ کو کافی حد تک ترقی یافتہ اور قابل استعمال بنا رکھا ہے ۔
افغانستان میں طالبان کی جنگ افغانستان کے اپنے حالات کی پیداوار ہے اور پاکستان اپنی سرزمین سے ابھی بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کی اجازت دینے پر تیار نہیں‘ لیکن خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر پاکستان کو ان مسائل کے حل کی طرف کوئی تو پیش قدمی کرنی پڑے گی‘ ورنہ پاکستان‘ جنوبی ایشیا‘ مغربی ایشیا اور چین کے ساتھ وسطی ایشیا پر مشتمل اسی تجارتی بلاک کا ایک فعال حصہ بننے کا موقعہ کھودے گا‘ جس کی بنیاد پاک چائنہ اکنامک کاریڈور کی صورت میں رکھی جا رہی ہے۔