1948ء میں آبنائے باسفورس سے سابق سوویت یونین کے جنگی جہاز گزرنے کے مسئلے پر اور یونان میں کمیونسٹ نواز گوریلا جنگ کی حمایت کی وجہ سے جب سوویت یونین اور ترکی کے درمیان کشیدگی نے خطرناک صورت اختیار کی تو اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے علامتی طور پر امریکی بحری بیڑے کے ایک تباہ کن جہاز ''مسوری‘‘ کو ترکی کی بندرگاہ پر لنگر انداز کرکے ترکی کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ صدر ٹرومین کے اس اعلان کو جسے ''ٹرومین ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا تھا‘ مشرق اور مغرب کے درمیان ''سرد جنگ‘‘ کا نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترکی کو 1949ء میں تشکیل پانے والے معاہدہ شمالی اوقیانوس ''نیٹو‘‘ میں بھی شامل کر لیا گیا۔ ترکی‘ یورپ اور شمالی امریکہ سے باہر واحد ملک تھا‘ جسے اس دفاعی معاہدے میں شامل کیا گیا جس کا بنیادی مقصد مغربی یورپی ممالک کا ممکنہ روسی حملے کے خلاف دفاع تھا۔ سرد جنگ کے اس طویل دور میں ترکی امریکہ کا ایک قریبی اور اہم اتحادی رہا۔ 1955ء میں جب مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لئے معاہدہ بغداد (بعد میں سینٹو) کیا گیا تو ترکی عراق‘ ایران‘ پاکستان اور برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر اس معاہدے کا رکن رہا۔
اب جبکہ شام سے اُڑنے والے ایک روسی جنگی طیارے کو ترکی نے اپنی سرحد کے قریب مار گرایا ہے اور روس کے ساتھ اس کے تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں‘ اس نوع کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اگر حالات کو قابو میں نہ رکھا گیا تو تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ بہت سے حلقوں کے نزدیک یہ جنگ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور مشرق وسطیٰ اور خصوصاً شام میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ اس کا پہلا مرحلہ ہے۔ گزشتہ چار سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے نہ صرف شام میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں‘ بلکہ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں ہمسایہ ممالک بلکہ یورپ اور امریکہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایک بھرپور جنگ کے جتنے بھی خدوخال ہوتے ہیں وہ سب کے سب شام اور عراق میں ہونے والی لڑائیوں میں موجود ہیں‘ بلکہ اب تو فریقین کی صف بندی بھی واضح ہو رہی ہے اور نئے کردار اس جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔
ان حالات میں ترکی اور روس کے درمیان کشیدگی‘ حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ شام میں جاری خانہ جنگی اور ''داعش‘‘ کے خلاف کارروائیوں میں روس اور ترکی بھی اہم کردار ہیں۔ شام کے حالات پہلے ہی پیچیدہ تھے‘ روسی طیارے کے مار گرائے جانے کے بعد روس اور ترکی کے درمیان کشیدگی نے اس صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
روس اور ترکی کے درمیان موجودہ کشیدگی کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ سردجنگ کے خاتمہ اور سابق سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد ترکی اور روس کے دوطرفہ تعلقات میں نمایاں پیش رفت ہوئی تھی۔ اسے ممکن بنانے میں دونوں ملکوں کی موجودہ قیادت نے اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی کوششوں کی وجہ سے ترکی اور روس کے درمیان نہ صرف دوطرفہ بنیادوں پر تجارت میں اضافہ ہوا‘ بلکہ سیاسی اور دفاعی شعبوں میں بھی ترکی اور روس کے درمیان قریبی تعاون قائم ہو چکا تھا۔ 2008ء سے روس ترکی کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چلا آ رہا ہے۔ اس سے قبل یہ مقام جرمنی کو حاصل تھا۔ 2013ء میں ترکی اور روس کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 32 بلین امریکی ڈالر تھا۔ 2010ء سے ترکی اور روس کے درمیان ویزے کے بغیر لوگوں کی آمدروفت جاری ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ترکی کو حاصل ہوا ہے کیونکہ ترکی میں سیر کی غرض سے آنے والے روسی سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء میں ترکی میں آنے والے روسی سیاحوں کی تعداد 40 لاکھ تھی۔
لیکن طیارے کے حادثے کے بعد روسی حکومت نے ترکی کے خلاف جن اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا ہے اُن میں اپنے باشندوں کو ترکی کا دورہ کرنے سے ممانعت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ روس نے ترکی سے کچھ درآمدات پر بھی پابندی کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیلات کا ابھی اعلان نہیں کیا گیا لیکن ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد روس میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ اگر روس کی طرف سے ترکی کے خلاف ایسے اقدامات کا سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف دونوں ملکوں میں گزشتہ ایک دہائی سے تعاون اور گرمجوشی پر مبنی تعلقات کو نقصان پہنچے گا‘ بلکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال‘ جس میں بھی ترک اور روس دونوں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘مزید پیچیدہ ہو جائے گی‘ خصوصاً داعش کے خلاف مغربی ممالک جس وسیع تر اتحاد کو تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں ‘وہ بُری طرح متاثر ہو گا۔
اس صورتحال پر یورپی ممالک خصوصاً فرانس سب سے زیادہ فکرمند ہے۔ پیرس میں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد فرانس نے داعش کے خلاف بھرپور فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ فرانسیسی حکومت ان کارروائیوں میں روسی مدد اور تعاون کی خواہشمند ہے‘ لیکن طیارے کے مار گرائے جانے کے بعد روس اور ترکی کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال نے اس کے راستے میں مشکل رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
امریکہ نے ابھی تک اس سلسلے میں بڑا محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت نے روس کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ روسی طیارے کو مار گرائے جانے میں امریکیوں نے ترکی کو طیارے کے روٹ کے بارے میں اطلاعات فراہم کر کے مدد کی تھی تاہم یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس جھگڑے میں امریکہ کا جھکائو ترکی کی طرف ہو گا‘ کیونکہ ترکی نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے امریکہ کا اتحادی ہے‘ لیکن سب سے زیادہ اہم شام کے بارے میں امریکہ اور ترکی کے درمیان موقف کی یکسانیت ہے۔ دونوں صدر بشارالاسد کو شام کی صورتحال کا ذمہ دار قرار دے کر اقتدار سے ان کی علیحدگی کے حق میں ہیں اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والی فوج کی مدد کر رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں روس صدر بشارالاسد کا ساتھ دیتے ہوئے شامی حکومت کے باغیوں کے خلاف فضائی حملوں میں مصروف ہے۔ امریکہ‘ ترکی اور سعودی عرب روس کی طرف سے شامی حکومت کی اس مدد پر خوش نہیں کیونکہ اس سے صدر بشارالاسد کو تقویت مل رہی ہے۔ روسی حکومت کے مطابق ترکی نے شام میں باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والے روسی جنگی طیارے کو جان بوجھ کر مار گرایا ہے تاکہ روس شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کو مدد فراہم کرنے اور ان کی حمایت میں باغیوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھنے سے اجتناب کرے‘ لیکن روس نے نہ صرف شام میں باغیوں کے خلاف فضائی حملے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘ بلکہ ترکی کے خلاف بھی سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ روس کا موقف ہے کہ ترکی کی طرف سے روس کا جنگی طیارہ مار گرائے جانے کا اقدام ایک سوچی سمجھی اشتعال انگیزی ہے اور ترکی کو اپنا جرم تسلیم کر کے اس پر معافی مانگنی چاہیے۔ لیکن ترکی نے روس کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے فریقین کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ تاہم ''داعش‘‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر یورپی ممالک اس بحران کو ختم کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ لیکن جب تک شام کے بحران میں مغربی طاقتیں ‘ترکی‘ امریکہ اور سعودی عرب اپنی دوغلی پالیسی کو ترک نہیں کرتے صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑنے کا احتمال ہے۔