15 جولائی 2016ء کو ترکی میں فوجی بغاوت جس سُرعت کے ساتھ رونما ہوئی اُتنی ہی چابک دستی سے اس پر قابو بھی پا لیا گیا۔ تبصرہ نگاروں کی رائے میں اس بغاوت کی ناکامی کی اصل وجوہات تین ہیں۔ ایک تو ترک آرمی کی ہائی کمانڈ کا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ باغیوں نے چیف کو قابو کر لیا تھا اور بندوق کے زور پر ان سے ایک اعلان پر دستخط کروانے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے انکار کیا جس پر انہیں یرغمال بنا لیا گیا۔ دوسرے‘ باغی ترک حکومت کے کسی بڑے عہدے دار یعنی صدر اور وزیراعظم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صدر اردوان کی مخالف پارٹیوںاور فوج نے بھی حکومت پر قبضہ کرنے کی مخالفت کی۔ جب عوام نے دیکھا کہ باغیوں کو فوج کی اعلیٰ کمانڈ کی حمایت حاصل نہیں ہے صدر اور وزیراعظم اور حکومت کے دیگر عہدے دار بھی محفوظ ہیں اور تمام سیاسی پارٹیاں باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک منتخب اور آئینی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں انہیں بھی حوصلہ ہوا اور انہوں نے آگے بڑھ کر نہتے ہونے کے باوجود ہتھیاروں سے مسلح فوجیوں کو سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا۔
لیکن بغاوت پر قابو پانے کے بعد صدر اردوان کے حکم پر باغیوں اور بغاوت میں ملوث ہونے کے شک کی بنا پر نہ صرف فوج کے تینوں شعبوں میں سینکڑوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا بلکہ حکومت کے دیگر شعبوں مثلاً عدلیہ‘ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں نظریاتی اختلافات کی بنا پر جس طرح ہزاروں ججوں‘ اساتذہ اور پروفیسروں کو ملازمت سے برخاست کیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغاوت چند سر پھرے نوجوانوں اور مڈل رینک افسران کا کام نہیں تھا‘ بلکہ اُس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔صدر اردوان کے اس اعلان اور ترکی میں اب تک شک کی بنیاد پر گرفتار اور برطرف ہونے والے سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کی روشنی میں دو اہم سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس بغاوت کے بعد ترکی کے اندرونی حالات آئندہ کیا رُخ اختیار کریں گے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ترکی کے دوسرے ممالک خصوصاً یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت ہو گی؟
جہاں تک ترکی کے اندرونی حالات کا تعلق ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اردوان ہر دلعزیز لیڈر ہیں اور ملکی معاملات پر اُن کی گرفت مضبوط ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صدر اردوان کے نظریے اور پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے لوگوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ترکی میں موجود ہے ‘یہ وہ لوگ ہیں جو جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے سیاست کو مذہب سے جدا رکھنا چاہتے ہیں۔ صدر اردوان کی کٹر اسلام پسندی سے اختلاف کرتے ہوئے فتح اللہ گولن کے حامیوں کی بھی ایک بڑی تعداد ملک کے سیاسی ‘سماجی اور انتظامی اداروں میں موجود ہے۔ فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر آنے والے لوگوں کا صرف صدر اردوان کے حامیوں سے ہی تعلق نہیں تھا‘ بلکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جوان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ حمایت کرے والی مخالف کی تین پارٹیوں میں کرد علیحدگی پسندوں کی حامی ''پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ بھی شامل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت اور آئین کے دفاع میں ترکی کی تمام سیاسی قوتیں متحد ہیں۔ لیکن بغاوت کے بعد صدر اردوان نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جو تطہیری مہم چلائی ہے اس سے یہ اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اب تک اس مہم سے 50,000 سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ صدر کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس تطہیری مہم کی آڑ میں مکمل آمرانہ اختیارات کا مالک بننا چاہتے ہیں۔
صدر اردوان پر ایسے الزامات عائد کرنے کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ کر صدر کے عہدے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد بھی اُن کی ایک مضبوط حکمران بننے کی خواہش کا آئینہ دار اقدام تھا ‘لیکن انتخابات میں اُنہیں اس مقصد کے لیے درکار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے وہ آئین میں ترمیم نہ کر سکے۔ اگر صدر اردوان کی طرف سے شروع کی گئی تطہیری مہم کا دائرہ پھیلتا ہے تو اُن کے سیاسی مخالفین کی طرف سے ردعمل ناگزیر ہو جائے گا۔ فوج
میں بھی تطہیری مہم سے بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ صدر اردوان خود کہہ چکے ہیں کہ 15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت خدا کی طرف سے بھیجا جانے والا تحفہ ہے کیونکہ اس سے انہیں فوج کی صفوں کو اپنے سیاسی مخالفین سے پاک کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر ہنگامی حالات کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صدر اردوان فوج میں تطہیر کا دائرہ وسیع کرتے ہیں تو اس سے اس ادارے میں یقیناً بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ غیر ملکی مبصرین کا تو یہاں تک خیال ہے کہ صدر اردوان کے خلاف ایک اور فوجی بغاوت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ترکی میں فوج نے ایک عرصہ تک سویلین قوتوں پر بالادست ہو کر حکومت کی ہے۔ لیکن صدر اردوان نے پہلی مرتبہ سویلین بالادستی قائم کی ہے جسے ہضم کرنے میں فوج کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ترکی میں اصل جنگ سویلین اور فوجی قوتوں کے درمیان بالادستی کی جنگ ہے۔ اس جنگ کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور جب تک اس کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا ترکی کو سیاسی بحرانوں کا سامنا رہے گا۔
اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ترکی کو مشرقی بحررُوم اور مشرق وسطیٰ کی دفاعی حکمت عملی میں بہت نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اسی لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے نیٹو میں ایک رکن کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور خصوصاً شام کی موجودہ صورتحال اور داعش کے خطرے کے پیش نظر امریکہ کے لیے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ترکی کے بعض حلقوں کی طرف سے امریکہ کو حالیہ فوجی بغاوت کا ذمہ دار ٹھہرانے کے باوجود امریکہ اور ترکی کے تعلقات میں کسی بڑے بریک ڈائون کا امکان نہیں کیونکہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات اور تعاون خود ترکی کے لیے بھی اہم ہے۔ ترکی کی فوج نیٹو معاہدے کی دوسری بڑی فوج ہے اور اسے قائم رکھنے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کو بھی برقرار رکھنے کے لیے ترکی کو امریکہ اور یورپ کا تعاون درکار ہو گا۔ امریکہ کی کوشش ہو گی کہ فوجی بغاوت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خراب نہ ہوں‘ کیونکہ داعش کے خلاف ہوائی حملوں کیلئے امریکہ ترکی کے ہوائی اڈوں کو استعمال کر رہا ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما اور سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری دونوں نے اپنے ترک ہم منصبوں سے علیحدہ علیحدہ ٹیلی فون پر بات کی ہے جس کا مقصد فوجی بغاوت کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ مشرق وسطی میں سٹرٹیجک الائمنٹ میں ترکی نے اپنا وزن سعودی عرب کے پلڑے میں ڈالا ہوا ہے ۔ اس کا ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی بغاوت کے بعد اس صف بندی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات جو طیارے مار گرائے جانے کی وجہ سے بہت خراب ہو گئے تھے بہتر ہونے کے قوی امکانات ہیں ۔ایک اطلاع کے مطابق روسی صدر پیوٹن اپنے ترک ہم منصب طیب اردوان سے جلد ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات یقیناً بہتر ہو جائیں گے۔