"DRA" (space) message & send to 7575

سانحۂ کوئٹہ اور اُس کے بعد

8اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش بم دھماکے نے خیبر سے لے کر کراچی تک ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بزدلانہ اور سفاکانہ کارروائی میں نہ صرف 74 افراد شہید ہوئے‘ جن میں اکثریت کا تعلق بلوچستان کی وکلا برادری سے ہے، بلکہ دہشت گردی کا یہ المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ صوبے میں امن و امان کی صورت حال میں نمایاں بہتری آ چکی ہے۔ اگرچہ بلوچستان اور خود کوئٹہ شہر میں گزشتہ کئی ماہ سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز پر حملوں اور ان حملوں کے نتیجے میں متعدد ہلاکتوں کی اطلاعات بھی آ رہی تھیں مگر صوبائی حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ذرائع انہیں شکست خوردہ اور مایوس دہشت گردوں کی آخری کوشش قرار دے کر ڈسمس کر رہے تھے۔ اس لیے 8 اگست کے واقعہ کے بعد‘ جس کے بارے میں خود وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کہا کہ یہ ایک منظم‘ منصوبہ بند اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے‘ حکومت اور اس کے اداروں پر کڑی تنقید بھی کی جا رہی ہے اور سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے ہوئے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیوں نہیں کی جا سکتی؟ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ نے حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی اور اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے سکیورٹی ایجنسیوں کی حکمت عملی کا دفاع بھی کیا‘ اور اس سلسلے میں موجودہ صورت حال کا سابق ادوار سے موازنہ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ موجودہ حکومت کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی درست سمت میں جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات کا گراف نمایاں طور پر نیچے آیا ہے
لیکن اپوزیشن پارٹیوں کے ردِ عمل اور غیر جانبدار میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے تبصروں اور خیالات کے اظہار سے محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اب تک جس پالیسی اور حکمتِ عملی پر عمل ہوتا رہا ہے اس کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں جن کوتاہیوں کا ارتکاب کیا گیا‘ ان کی نشاندہی بھی کی گئی۔ مثلاً نیشنل ایکشن پلان کے کئی نکات پر عمل درآمد میں ناکامی، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور معلومات کے تعاون کا فقدان اور مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بد اعتمادی اور کوآرڈی نیشن کی کمی۔ ان حقائق کا اعتراف کسی حد تک خود وزیر اعظم نے بھی قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کیا اور وعدہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کیا جائے گا اور صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر سیاسی اور عسکری قیادت نے اہم فیصلے بھی کیے ہیں۔ ان میں ایک فیصلہ نیشنل ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کے لیے ایک ٹاسک فورس کا قیام ہے جس میں متعلقہ محکموں اور ایجنسیوں کے ماہرین کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ 
یہ فیصلے وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ ایک اجلاس میں کیے گئے‘ جس میں اہم وفاقی وزرا اور وفاقی محکموں کے سربراہان کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی، ڈی جی ملٹری آپریشن اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں‘ جو 6 گھنٹے جاری رہا‘ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا اور ان نکات کی نشان دہی کی گئی جن پر ابھی تک تسلی بخش طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے چند سفارشات بھی کی گئی ہیں۔ ان میں دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد کے ذرائع اور طریقوں کا کھوج لگا کر انہیں مسدود کرنا‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان پہلے سے زیادہ تعاون اور کوآرڈی نیشن کو فروغ دینا‘ جن اداروں کے پاس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان اور فنڈز نہیں ہیں انہیں یہ وسائل مہیا کرنا، جن دہشت گردوں اور انتہا پسند تنظیموں پر قانونی پابندی ہے انہیں نئے نام کے ساتھ فعال ہونے سے روکنا اور سب سے بڑھ کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون اور اشتراک عمل کو فروغ دینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔ وفاقی سطح پر حکومتی اداروں کے اجلاس اور صلاح مشوروں سے یہ بات عیاں ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف نئے عزم کے ساتھ کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے اب تک کی جانے والی کوششوں میں کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی گئی اور ایک لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا ہے لیکن پاکستان میں امن و امان‘ سلامتی‘ جمہوریت بلکہ اس ملک کی بقا کو درپیش اس چیلنج سے اس وقت تک کامیابی سے نہیں نمٹا جا سکتا جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ دہشت گردی ایک دیرینہ پیچیدہ اور کثیر جہتی مسئلہ ہے اور اس کے ایک یا باقی پہلوئوں کو چھوڑ کر صرف چند کو سامنے رکھ کر کارروائی کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کو انتہا پسندی نے جنم دیا‘ جس کی ایک شکل فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کارروائیاں پورے ملک اور بلوچستان میں بھی ہوتی رہی ہیں۔
حکومت نے چند انتہا پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی تو عاید کر رکھی ہے لیکن انتہا پسندانہ نظریات کے سدباب کے لیے نظریاتی اور سیاسی محاذ پر جو کوشش درکار ہے وہ پالیسی نظر نہیں آتی۔ دوسرے پاکستان ایک وفاق ہے‘ جس کے چار صوبے ہیں۔ ہر صوبہ آئین کے تحت دیے گئے اختیارات کا مالک ہے جنہیں استعمال کرنے کا حق صرف اور صرف جمہوری طور پر منتخب صوبائی حکومتوں کو حاصل ہے۔ بے شک 18ویں ترمیم کے بعد صوبے اندرونی معاملات میں زیادہ بااختیار ہو چکے ہیں لیکن اہم شعبوں مثلاً مالیات، خارجہ پالیسی اور دفاع میں اب بھی مرکز صوبوں سے کہیں زیادہ بااختیار ہے۔ اس لیے قومی سطح پر طے کیے گئے کسی بھی لائحہ عمل پر بغیر کسی رکاوٹ مکمل طور پر عمل درآمد کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلے کیونکہ صوبائی حکومتوں کے تعاون کے بغیر مرکز کی سطح پر طے کی گئی کسی بھی پالیسی پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں تو اس تعاون کی ضرورت اور اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ کیونکہ امن و امان کا مسئلہ صوبائی حدود میں شامل ہے‘ مگر بدقسمتی سے اس جانب مطلوبہ پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ دہشت گردی کے خلاف
ایسی کارروائیوں نے‘ جن کا کنٹرول وفاقی ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے‘ مرکز اور صوبوں کے درمیان نئی بدگمانیوں، شکایات اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ اس کی واضح مثال کراچی میں رینجرز کا آپریشن ہے جو اگرچہ صوبائی حکومت کی درخواست اور مرضی سے شروع کیا گیا، لیکن گزشتہ تین سال کے عرصہ میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان کشیدگی کا باعث بن چکا ہے۔ تیسرے‘ آج کل کی دنیا سمٹ کر ایک گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے‘ اس لیے کسی ملک کو درپیش مسئلہ‘ خواہ اس کا سبب اندرونی محرکات ہی کیوں نہ ہوں، اب ایک خالصتاً اندرونی مسئلہ نہیں رہا۔ پاکستان میں دہشت گردی ملک کے امن، سلامتی، تحفظ اور ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے حکومت کی تمام تر توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہیے‘ اس کے باوجود کوئی بھی حکومت اکیلی اپنے وسائل سے اس چیلنج پر قابو نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے اسے بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کی طرف سے تعاون اور مدد کی ضرورت ہے‘ کیونکہ ہر دہشت گرد تنظیم‘ خواہ وہ کسی بھی ملک میں سرگرم عمل کیوں نہ ہو‘ کے تانے بانے دنیا میں دیگر دہشت گرد تنظیموں سے ملتے ہیں؛ چنانچہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے‘ جس کے سدباب کے لیے عالمی سطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات ہیں۔ کوئٹہ کے ہولناک اور دلخراش سانحہ نے قوم کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ اور زیادہ مؤثر کارروائیوں کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے لیکن اس پر کامیابی سے عمل درآمد ایک مربوط، وسیع اور ہمہ جہتی حکمت عملی سے مشروط ہے جس میں اولین ترجیح ہمیں داخلی اتحاد اور بیرون امن کے قیام کو دینی چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں