جوں جوں انتخابات 2018ء کا وقت قریب آ رہا ہے‘ ملک کے سیاسی افق پر چھائے ہوئے مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کے بادل بھی چھٹتے نظر آ رہے ہیں۔ سینیٹ میں حلقہ بندیوں سے متعلقہ آئینی ترمیمی بل منظور ہونے کے بعد اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی اور آئندہ پارلیمانی انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت کے ارتقائی سفر کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی تمام کوششیں دم توڑ گئی ہیں۔ اب بھی اراکین اسمبلی کے استعفوں اور دھرنوں کے ذریعے اسمبلیوں کی تحلیل اور حکومت کی چھٹی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن 19 دسمبر کو سینیٹ میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بریفنگ اور اس بریفنگ کے دوران آرمی چیف کی جانب سے جمہوریت کی دوٹوک الفاظ میں حمایت سے ایسے عناصر کی امیدوں پر یقیناً اوس پڑ گئی ہو گی۔ اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفوں کے اعلان کا اکّا دکا اطلاعات تو آتی رہیں گی‘ مگر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ قومی اسمبلی یا چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سے کسی ایک کے اراکین بھاری تعداد میں مستعفی ہو کر موجودہ سیاسی ڈھانچے کو دھڑام سے نیچے گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اب بھی قبل از وقت انتخابات کے مطالبے پر قائم ہیں‘ لیکن ان کے مطالبے میں کوئی جان نہیں رہی۔ ایک تو یہ کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سینیٹ میں حلقہ بندیوں کے ترمیمی بل کی منظوری میں حصہ لے کر خان صاحب کا موقف نہ صرف کمزور بلکہ تضادات کا شکار ہو گیا ہے۔ نئے ترمیمی بل کی منظوری کے بعد آئندہ انتخابات تازہ ترین مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کے تعین کے بعد ہی ممکن ہیں۔ اور اس کیلئے وقت درکار ہے۔ اس لئے تحریک انصاف نے مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے پہلے موجودہ حکومت کی رخصتی کا اگر کوئی خواب دیکھا تھا تو وہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
قومی سیاست کے تیز و تند دھارے میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف کی طرف سے اس اعلان نے کہ آئندہ انتخابات میں شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے پارٹی کے امیدوار ہوں گے‘ ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس بحث میں جو سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘ وہ یہ ہیں کہ اگر شہباز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے ن لیگ کے امیدوار ہیں تو انتخابی مہم کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہو گی؟ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کی قیادت نواز شریف کریں گے۔ لیکن اس صورت میں بیانیہ کس کا چلے گا؟ نواز شریف کا یا شہباز شریف کا ‘ کیونکہ اس امر سے سب واقف ہیں کہ سول ملٹری تعلقات اور مذہبی عناصر کے بارے میں پالیسی دونوں بھائیوں کی ایک جیسی نہیں۔ تاہم لیگی حلقے اس تضاد کو ختم کرنے کے بارے میں پُر اعتماد نظر آتے ہیں۔ کارکردگی کے محاذ پر ن لیگ کے پاس اگر عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ ہے تو وہ شہباز شریف کا پنجاب ہے۔ لیکن پارٹی کو ووٹ نواز شریف کے نام پر ملیں گے۔ ن لیگ کے وہ رہنما اور اراکینِ اسمبلی جو آئندہ انتخابی مہم کی باگ ڈور شہباز شریف کو سونپنا چاہتے تھے‘ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ پارٹی کا ووٹ بینک نواز شریف کی وجہ سے برقرار ہے۔ شہباز شریف کی نام زدگی سے نہ صرف لیگی حلقوں میں فکر اور غیر یقینی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے‘ بلکہ وہ عناصر بھی لاجواب ہو گئے ہیں جو نواز شریف پر شہباز شریف کو نظر انداز کرنے اور صرف اپنی ذات کی خاطر عدالتی فیصلوں کو ہدفِ تنقید بنانے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف اس فیصلے میں مزید تاخیر کرتے تو نہ صرف ن لیگ بھی دراڑیں مزید گہری ہو جاتیں‘ بلکہ پارٹی اراکینِ اسمبلی کی ایک بڑی تعداد بھی مستعفی ہو جاتی۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جس طرح حدیبیہ پیپر ملز کیس کی دوبارہ سماعت کیلئے نیب کی اپیل خارج کی ہے‘ اس سے شریف فیملی کی ساکھ کو تقویت ملی ہے اور ان کے اس موقف کی تصدیق ہوئی ہے کہ ان کے خلاف نیب کے کیسز کی بنیاد محض الزامات ہیں اور انہیں ثابت کرنے کیلئے کسی قسم کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف جو ریلیف ملا ہے‘ اس سے بھی پاکستان مسلم لیگ کے رینک اور فائل کا مرکزی قیادت پر اعتماد اور پارٹی کے روشن مستقبل کے لئے امید پیدا ہوئی ہے۔ نواز شریف اور ن لیگ کے مخالف سیاسی حلقوں کیلئے یہ صورتحال نہ صرف غیر متوقع بلکہ سخت ناگوار اور حوصلہ شکن ہے۔ وہ تو 28 جولائی کے بعد ن لیگ کو تتر بتر ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور اس سال کے آخر یا زیادہ سے زیادہ نئے سال کے پہلے ایک دو ماہ گزرنے سے پہلے موجودہ حکومت کی جگہ ایک طویل المیعاد اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری حکومت دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیم‘ حدیبیہ پیپر ملز کیس کے عدالتی فیصلے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کی بدستور مخالفت نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
اب عمران خان کے پاس ایک ہی آپشن رہ گیا ہے اور وہ ہے سیاسی جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد لیکن ان کے ذریعے وہ پی ٹی آئی کے شو آف پاور کا مظاہرہ کر سکتے ہیں‘ موجودہ حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور نہیں کر سکتے۔ مگر اس کے باوجود ملک کی سیاسی فضا آلودہ کرنے اور موجودہ حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ مثلاً پاکستان عوامی لیگ حزب مخالف کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ماڈل ٹائون سانحے کے شہدا کو انصاف دلانے کیلئے ن لیگ کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے خلاف تحریک چلانا چاہتی ہے۔ اس مقصد کیلئے تحریک کے سربراہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں چند سیاسی پارٹیوں نے شمولیت کیلئے ہاں بھی کر دی ہے اور مزید پارٹیوں کی طرف سے بھی رضامندی کا اعلان کر دیا جائے گا‘ لیکن عوامی تحریک کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ پارٹیاں ماڈل ٹائون سانحہ پر اس سے ہمدردی رکھتی ہیں‘ اس کے مطالبات کی حمایت کرتی ہیں اور تحریک کی طرف سے ان مطالبات کے حق میں احتجاج اور دھرنے کی بھی حمایت کریں گی مگر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ یہ پارٹیاں اس کے دھرنوں میں عملی طور پر شامل ہو کر آخری وقت تک اس کا ساتھ بھی دیں گی۔ اس لئے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی اب ساری توجہ آئندہ انتخابات پر ہے‘ جس کے بروقت انعقاد کے راستے میں سے ہر رکاوٹ دور ہو چکی ہے۔ اب ان دونوں سیاسی پارٹیوں کی تمام سرگرمیوں‘ خواہ وہ جلسوں کی صورت میں ہوں یا ورکرز کنونشن کی صورت میں‘ کا تعلق آئندہ انتخابات میں اپنی اپنی پوزیشن بہتر بنانے سے ہو گا۔ اب کسی امپائر کی طرف سے انگلی کے اشارے کی کوئی امید نہیں اور افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی الفاظ کی جنگ کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف زمینی کارروائیوں کی دھمکیوں نے ایک ایسی جیو سٹریٹجک صورت حال پیدا کر دی ہے‘ جس میں پاکستانی عوام کی طرف سے کسی بھی احتجاجی تحریک کی حمایت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔