"DRA" (space) message & send to 7575

سینیٹ انتخابات اور مستقبل کی سیاست

سینیٹ کی خالی ہونے والی 52 نشستوں پر حالیہ انتخابی نتائج پر مختلف حلقے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے تبصرہ کر رہے ہیں لیکن ایک نکتے پر سب متفق نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ ایوانِ بالا کے ان انتخابات کا کامیاب اور پرامن انعقاد ملک میں جمہوریت کے لیے ایک اچھا شگون ہے کیونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد بار ایسے مرحلے بھی آئے ہیں جب ان انتخابات کا انعقاد مشکوک نظر آنے لگا تھا۔ خصوصاً جب بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے محروم کیا گیا تو بہت سے لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ مارچ سے پہلے اسمبلیوں کی بساط لپیٹ کر‘ پورے نظام کو ڈی ریل کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا ہے لیکن ملک کی سرکردہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اسمبلیوں کو توڑ کر قبل از وقت انتخابات کروانے کی جم کر مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اسی لئے بروقت پرامن اور شفاف طریقے سے ان انتخابات کو کروانے کے لیے جہاں الیکشن کمیشن اور اس کا تمام عملہ مبارکباد کا مستحق ہے‘ وہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ شیڈول کے مطابق سینیٹ کے انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کے تسلسل کو جس طرح مستحکم کیا گیا ہے‘ اس کا تمام تر کریڈٹ سیاسی پارٹیوں کو جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ سینیٹ کے یہ انتخابات جمہوری سیاسی قوتوں کی فتح ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ 
جہاں تک انتخابی نتائج کا تعلق ہے تو وہ کم و بیش توقعات اور پیشگی اندازوں کے مطابق ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی علی الترتیب پہلی اور دوسری پوزیشن کے ساتھ ابھری ہیں۔ اسی کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن باقی تمام پارٹیوں کے مقابلے میں مضبوط ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی ان دونوں پارٹیوں کی وجہ پوزیشن ہے جو سینیٹ کے انتخابات کے بعد ہمیں ایوان بالا میں نظر آتی ہے بلکہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان توازنِ طاقت کا جو ڈھانچہ ابھرا تھا‘ سینیٹ کے ان انتخابات نے اسی پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ مثلاً سندھ اور بلوچستان سے ایوان بالا میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے دو کے علاوہ تمام کے تمام سینیٹرز کا تعلق سندھ سے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اگر پنجاب سے سینیٹ کی ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیونکہ پنجاب اسمبلی میں یہ حکمران مسلم لیگ (ن) کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہے۔ پنجاب سے پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹ کی کوئی سیٹ حاصل نہیں کر سکی اور یہ صوبہ مرکزی حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) کا بدستور گڑھ ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد اب اگلا مرحلہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا ہے۔ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) 33 نشستوں کے ساتھ ایوان بالا میں اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ پیپلز پارٹی 20 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور تیسرا بڑا گروپ کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کا ہے جن کی تعداد 17 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف چیئرمین کے انتخاب بلکہ قانون سازی کے عمل میں بھی سینیٹ کے کردار کا انحصار بہت حد تک ان آزاد اراکین کے رویے پر ہو گا۔ حکمران جماعت کو ایوان بالا سے کسی آئینی بل کی منظوری کے لئے ایوان بالا میں اپنی ہم خیال اور حلیف جماعتوں کے اراکین کے علاوہ ان آزاد اراکین سے رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے تعاون کے ہاتھ کا امکان کم نظر آتا ہے۔ اگر ان آزاد خصوصاً بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکین کی کچھ تعداد پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرتی ہے تو قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی پیپلز پارٹی کی اہمیت میں اضافہ ہوگا لیکن چیئرمین کی کرسی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس کے لئے اسے تمام آزاد اراکین کے علاوہ پی ٹی آئی کے بارہ اراکین کو بھی ساتھ ملانا ہوگا‘ جس کا امکان کم نظر آتا ہے۔
سینیٹ کے اراکین کا انتخاب براہ راست نہیں ہوتا بلکہ اس کے ارکان کو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کرتے ہیں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نمائندگی کے لئے قومی اسمبلی کے اراکین سینیٹ میں اپنے نمائندے بھیجتے ہیں اسی لئے سینیٹ کے انتخابی نتائج کو عوامی سطح پر سیاسی توازن کا مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا؛ تاہم قومی سیاست میں سینیٹ اور اس کے ارکین کے چنائو کی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد قانون سازی کے عمل میں سینیٹ کے کردار میں اضافہ ہو چکا ہے۔ آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے سینیٹ کے کل اراکین کی دو تہائی تعداد کی حمایت تو پہلے ہی لازمی تھی اب ایک عام بل کو بھی قانون کی شکل دینے کیلئے قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد سینیٹ میں بھی اکثریت کی حمایت درکار ہے۔
سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں بھی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اس کی وجہ یہی ہے کہ حکمران جماعت نے اپنے خلاف آنے والے بعض عدالتی فیصلوں کے بعد چند قوانین میں تبدیلی کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اس میں کامیابی کیلئے اسے قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی مطلوبہ اکثریت حاصل کرنا پڑے گی۔ حالیہ انتخابات کے بعد سینیٹ میں جو پارٹی پوزیشن ابھر کر سامنے آئی ہے‘ اس کے پیش نظر صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکمران جماعت کو ایوان بالا میں اپنی مرضی کی آئینی اور قانونی ترامیم میں کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اس کیلئے اسے نہ صرف اپنی حلیف جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا بلکہ آزاد اراکین سینیٹ کی حمایت بھی حاصل کرنا پڑے گی۔ پاکستان حال میں ہی جن سیاسی حالات سے گزر رہا ہے ان کے پیش نظر آئندہ آنے والی حکومت کیلئے قانون سازی کے عمل کو اپنی مرضی کے مطابق پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں حکمران جماعت، بی جے پی کو بھی 2012ء کے پارلیمانی انتخابات میں لوک سبھا (ایوان زیریں) میں دو تہائی نشستیں حاصل کرنے کے باوجود اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں کانگریس اور بی جے پی کی دیگر مخالف پارٹیوں کو اکثریت حاصل تھی۔ گزشتہ ساڑھے تین سال کے عرصہ میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے متعدد ریاستی انتخابات جیت کر راجیہ سبھا میں بھی اپنی پوزیشن بہتر بنا لی ہے لیکن پاکستان میں کسی مرکزی حکومت کو یہ آپشن اتنی وسعت کے ساتھ حاصل نہیں کیونکہ ہمارے ہاں صرف چار صوبے ہیں۔ اسی طرح آئندہ پارلیمانی انتخابات کے بعد جو بھی حکومت اقتدار سنبھالے گی‘ اسے قانون سازی کیلئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ یکطرفہ قانون سازی یا بلڈوزنگ کا امکان کم ہو گا۔ ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن میں قانونی اور آئینی ڈیڈ لاک تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن جمہوریت اور وفاقی ڈھانچے کی تقویت کیلئے یہ صورتحال مفید بھی ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے حکمران جماعت پر چیک رہے گا اور وہ قانون سازی کے عمل میں اپوزیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنی من مانی نہیں کر سکے گی۔ سینیٹ کے ان انتخابات میں اگرچہ ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کے کھلے استعمال کی خبریں بھی عام ہیں لیکن کچھ مثبت آثار بھی دیکھنے میں آئے ہیں مثلاً ان انتخابات میں بلوچستان کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں سیاسی پارٹیوں نے انتخابی عمل پر اپنی گرفت مضبوط کر رکھی ہے خصوصاً حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے بارے میں جو قیاس آرائیاں تھیں کہ نواز شریف کو اس کی صدارت سے ہٹانے کے بعد لیگی نامزد کردہ امیدواروں کی کامیابی مشکوک ہو جائے گی‘ وہ غلط ثابت ہوئی ہیں بلکہ آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لینے والے کامیاب لیگی امیدواروں کی طرف سے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان حکمران جماعت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ نواز شریف کو مائنس کرنے کی کوششیں ایک دفعہ پھر ناکام ثابت ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں