"DRA" (space) message & send to 7575

18ویں آئینی ترمیم اور اس کے سیاسی مضمرات

ملک میں آج کل اٹھارہویں آئینی ترمیم کے حوالے سے مختلف لیکن اہم باتیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ حلقوں کے نزدیک آٹھ برس قبل منظور ہونے والی اس آئینی ترمیم سے پاکستان کو انتشار اور عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں ملا اور ملکی سالمیت کے لئے یہ ترمیم شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے‘ جنہیں عوامی لیگ کے سربراہ نے پاکستان کی آئینی گتھی کو سلجھانے کے لئے 1960ء کی دہائی میں پیش کیا تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں اس قسم کے خیالات کے خلاف سخت رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی تو اس کے دفاع میں ایک عرصہ سے بیان دئیے چلے جا رہے ہیں‘ کیونکہ اس ترمیم کو مرتب کرنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ کام انہوں نے ہی کیا تھا‘ لیکن ترمیم کے خلاف موجودہ مہم پر جو رد عمل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ظاہر کیا ہے‘ وہ انتہائی اہم ہے اور اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت کی گئی آئینی تبدیلیوں کو ختم کرنے کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی اس ترمیم کو کسی صورت بھی رول بیک کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اور اس کے تحت صوبوں کو جو اختیارات حاصل ہیں‘ ان کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو کا یہ بیان اس لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے مقبول پارٹی ہے۔ ان کے اس بیان کو سندھی عوام کے جذبات کا آئینہ دار کہا جا سکتا ہے۔ سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر دو چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بھی عوام کی اکثریت کا اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں یہی موقف ہے۔ اس طرح اگر یہ تنازعہ شدید صورت اختیار کر گیا تو پاکستان میں وہی صورت حال پیدا ہو جائے گی‘ جو 1950ء کی دہائی میں تھی‘ جب ملک کا سب سے بڑا سیاسی اور آئینی مسئلہ صوبائی خود مختاری یعنی صوبوں اور مرکز کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا ایک متفقہ فارمولا طے کرنا تھا۔ 
اٹھارہویں ترمیم کیا ہے؟ اس کی دفعات پاکستان کے آئین اور سیاسی نظام پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں اور ان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا کیا سیاق و سباق ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے ان معاملات پر ایک نظر ڈال لینا صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے گا۔ 1988ء میں جنرل ضیا کی فوجی آمریت کے خاتمے اور جمہوری نظام کی بحالی کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ تھا کہ فوجی آمریت کے دوران میں 1973ء کے آئین میں کی گئی یک طرفہ تبدیلیوں کو ختم کرکے اسے اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔ ان تبدیلیوں کے ذریعے جنرل نے 1973ء کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام کو عملاً صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی طرح چھوٹے صوبوں کی طرف سے پیہم مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے وقت انہیں مزید داخلی خود مختاری دینے کا جو مطالبہ کیا گیا تھا‘ اسے پورا کیا جائے۔ یاد رہے کہ تب مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک کنکرنٹ فہرست رکھی گئی تھی‘ اور کہا گیا تھا کہ ان معاملات پر بعد میں غور اور فیصلہ کیا جائے گا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جسے پارلیمنٹ نے تمام نمائندہ سیاسی جماعتوں کی حمایت سے اپریل 2010 میں منظور کیا تھا‘ انہی دو قومی مطالبات کا جواب ہے۔ اس کے تحت اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور اہم تقرریاں کرنے (مثلاً اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان) کے اختیارات صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کر دئیے گئے تھے۔ اسی طرح قانون سازی‘ مالیاتی امور اور قدرتی وسائل کی ملکیت کے شعبوں میں صوبوں کے اختیارات کو وسیع کرکے کنکرنٹ لسٹ ختم کر دی گئی تھی۔ صوبوں کو اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے اندرونی اور بیرونی قرضے حاصل کرنے کی اجازت دی گئی‘ اور گیس‘ تیل اور ساحل سمندر کے وسائل پر صوبوں کی مشترکہ ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم سے صوبے نہ صرف خوش ہیں بلکہ وہ داخلی خود مختاری کے دائرے کو اور بھی وسیع کرنا چاہتے ہیں‘ یہ دلیل تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ صوبے مرکز سے منتقل کئے گئے اداروں کے معاملات چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبے ان اداروں کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور پچھلے سات آٹھ برسوں میں انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے۔ لیکن بعض قوتیں‘ جنہوں نے ہمیشہ پارلیمنٹ کے مقابلے میں ہیڈ آف دی سٹیٹ اور صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو توانا کرنے کی کوشش کی ہے‘ اس سے ناخوش ہیں۔ ماضی میں ایوب خان کا صدارتی نظام نافذ کر کے اور آٹھویں اور اس کے بعد 17ویں آئینی ترمیم کو شامل کر کے اس تاریخی سفر کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تھی اور اب بھی 18ویں ترمیم کو تنقید کا نشانہ بنا کر اس عمل کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت نے آزادی کے وقت جو سیاسی نظام ورثے میں حاصل کیا تھا‘ وہ صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو زیادہ با اختیار بنانے کے اصول پر مبنی تھا۔ آزادی کے بعد دونوں ملکوں میں مرکز سے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے حق میں مطالبات نے زور پکڑنا شروع کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں 1956ء کے آئین کے تحت 1935ء کے ایکٹ کے مقابلے میں صوبوں کو زیادہ داخلی خود مختاری دی گئی تھی۔ اسی طرح 1956ء کے آئین کے مقابلے میں 1973ء کے آئین کے تحت صوبائی خود مختاری کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو زیادہ اختیارات حاصل ہیں اور تمام اہم شعبے یعنی دفاع‘ خزانہ‘ خارجہ امور‘ مواصلات‘ انکم ٹیکس اور کسٹمز مرکز کے پاس ہیں۔ اسی طرح خصوصی آئینی دفعات مثلاً ہنگامی حالات کے نفاذ کے بارے میں مرکز صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بااختیار ہے‘ کیونکہ پاکستان ایک فیڈریشن ہے‘ کنفیڈریشن نہیں۔ تاہم فیڈریشن کی روح کے مطابق صوبوں کے پاس اپنے داخلی معاملات چلانے اور عوامی فلاح و بہبود کے شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات اور خوراک میں عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مناسب اور مطلوبہ اختیارات ہونے چاہئیں۔ 18ویں آئینی ترمیم نے ایک قومی اتفاق رائے سے اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے تو 18ویں آئینی ترمیم کے تحت آدھے سے زیادہ آئین کو تبدیل کیا گیا ہے‘ لیکن کنکرنٹ لسٹ میں شامل محکموں کو صوبوں کی تحویل میں دینے‘ قومی آمدنی میں صوبوں کے حصے میں اضافے اور قدرتی وسائل پر مشترکہ ملکیت صوبائی خود مختاری کے شعبے میں اس کی نمایاں کامیابی ہے۔ اسی طرح ضیاء الحق کے زمانے میں آٹھویں اور جنرل مشرف کے دور میں 17ویں ترمیم کے ذریعے پاکستان میں صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی‘ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس کو ناکام بنا دیا گیا ہے لیکن اس آئینی ترمیم پر عمل درآمد کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان میں سیاسی استحکام‘ قومی یک جہتی اور جمہوریت کے فروغ کے لئے ان رکاوٹوں کو دور کر کے 18ویں آئینی ترمیم سے پوری طرح مستفید ہونے کی ضرورت ہے‘ نہ کہ اسے تنقید کا نشانہ بنا کر اور اسے رول بیک کرنے کی تجویز پیش کر کے ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا جائے۔ موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں ہمارا ملک ایسی کسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں