سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کا امکان موجود ہے‘ اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چنائو میں پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعاون کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے چیئرمین سے لے کر پارٹی کے ترجمان فواد چودھری تک تمام رہنما پی پی پی کے ساتھ انتخابات کے دوران یا انتخابات کے بعد کسی قسم کے تعاون کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ پارٹی کے چیئرمین عمران خان تو یہ تک کہہ چکے کہ زرداری کے ساتھ ہاتھ ملانا ایسا ہی ہے جیسے ''میری گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ کی سیاسی محنت اور جدوجہد پر پانی پھیر دیا جائے‘‘۔ اپنے ایک تازہ ترین بیان میں فواد چودھری نے کہا کہ پارٹی قیادت کو یقین ہے‘ صوبہ پنجاب سے انہیں قومی اسمبلی کی نشستوں کی اتنی تعداد حاصل ہو جائے گی کہ مرکز میں حکومت سازی کے لئے نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ کسی بھی جماعت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر ایک آدھ ووٹ کی ضرورت پڑی تو جیسا کہ عمران خان اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں، آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی کی حمایت سے چوری کر لی جائے گی۔ مروجہ سیاست کے تسلیم شدہ اصولوں اور قوانین کی بنیاد پر اول الذکر کا مؤقف زیادہ منطقی نظر آتا ہے۔ اس کی تین وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ سیاست میں ہر بات ممکن ہے۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی‘ دونوں سیاسی پارٹیاں ہیں اور ہر سیاسی پارٹی کا بنیادی مقصد اقتدار (پاور) حاصل کرنا ہے۔ اسی لئے سیاست کا دوسرا نام اقتدار کے لئے جنگ (Power Struggle) ۔ جرمنی کے مشہور سٹریٹیجک تھنکر کلاز وٹز (Clause Witz) نے کہا تھا کہ سیاست اور جنگ میں کوئی فرق نہیں۔ صرف صورتیں الگ الگ ہیں۔ اس لئے اگر محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے تو سیاست میں بھی ہر امکان کی گنجائش موجود ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ارسطو نے اپنے سیاسی فلسفے کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ اس لئے آصف علی زرداری پورے نمبروں کے حق دار ہیں‘ اور نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں پارٹیاں مشترکہ مقصد حاصل کرنے کیلئے تعاون یا اتحاد کر سکتی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے حالیہ انتخابات میں دونوں پارٹیاں تعاون کر چکی ہیں‘ حالانکہ ان انتخابات سے قبل عمران خان بارہا اعلان کر چکے تھے کہ وہ زرداری کے ساتھ اتحاد تو بڑی دور کی بات‘ ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا عملی مظاہرہ رواں سال کے آغاز میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون پر پنجاب حکومت کے خلاف دھرنے کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ اس دھرنے میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے اظہار یکجہتی کے لئے پی پی پی، پی ٹی آئی، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور وَن مین سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ نے بھی دھرنے میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی خواہش بلکہ اصرار تھا کہ عمران خان بھی تشریف لائیں اور زرداری صاحب کے ساتھ سٹیج پر بیٹھیں لیکن عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا؛ چنانچہ ان کے مطالبے پر سٹیج کو زرداری سے خالی کرایا گیا تاکہ عمران خان دھرنے میں شریک ہو سکیں۔ اس کے بعد بھی عمران خان نے زرداری کو للکارنے کا سلسلہ جاری رکھا‘ لیکن جب سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں اور اس کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے چنائو کا مرحلہ آیا تو دنیا نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے لائن بنا کر پی پی پی کے امیدوار (یا امیدواروں) کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں کیلئے ووٹ دیئے۔ اس سے عام آٓدمی ایک ہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر پی پی پی اور پی ٹی آئی اکٹھی ہو سکتی ہیں تو نئی قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان (وزیر اعظم) کے چنائو میں بھی پی پی پی اور پی ٹی آئی ارکان مشترکہ امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس امکانی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے زرداری صاحب نے بڑی پتے کی بات کی ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے تعاون کی بنیاد ''ضرورت‘‘ تھی۔ یہی ''ضرورت‘‘ 2018ء کے انتخابات کے دوران یا انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسی ضرورت کا مطلب کیا ہے‘ یعنی ہر قیمت پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں اقتدار سے محروم رکھنا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان یُوٹرن کے بادشاہ ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں انہوں نے متعدد بار دفعہ اپنا مؤقف بدلا ہے۔ 2014ء میں اسلام آباد کے دھرنے کے موقع پر انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ جان دے دیں گے لیکن نواز شریف کے استعفے کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے‘ مگر اس کے بعد دیکھا گیا کہ عمران خان کو 126 دن کے دھرنے کے بعد وزیر اعظم کے استعفے کے بغیر اسلام آباد سے واپس لوٹنا پڑا۔ ایک وقت تھا جب عمران خان کی تمام توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف تھا اور وہ اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر ملیامیٹ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ لیکن ایک وقت پھر ایسا آیا کہ کراچی میں جلسے کیلئے عمران خان ایم کیو ایم سے تعاون کے طلبگار ہوئے۔ عمران خان نے پوری قوم کے سامنے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ اس کے حکم کے تحت تشکیل دیئے جانے والے کمیشن کا 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر جو بھی فیصلہ ہو گا وہ انہیں منظور ہو گا‘ لیکن جوڈیشل کمیشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات رد کرنے کے باوجود عمران خان ابھی تک 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اپنی سیاسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اگر عمران خان آج جسے ''سب سے بڑی بیماری‘‘ کہتے ہیں‘ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے پر آمادہ ہو جائیں تو یہ ایک غیر متوقع اور حیران کن بات نہیں ہو گی۔ جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے‘ اسے اندرون سندھ کے علاوہ اور کہیں قابل ذکر کامیابی کے حصول کی امید نہیں۔ اسی لئے زرداری کی سیاست کا محور اب سندھ سے کامیاب ہونے والے اس کے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں‘ جن کی بنیاد پر زرداری صاحب عمران خان سے مرکزی حکومت کی تشکیل کے لئے سودے بازی کر سکتے ہیں۔ اس میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ زرداری کی قیادت میں پی پی پی کو عمران خان بطور وزیر اعظم قابل قبول ہے اور اسے ممکن بنانے کیلئے پی پی پی، پی ٹی آئی کا بھرپور ساتھ دینے کو تیار ہے۔ لیکن اس تقسیم میں پی پی پی پنجاب میں ایسا سیاسی سپیس (Space) چاہتی ہے‘ جہاں سے وہ پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں اپنی موجودگی ثابت کر سکے۔ لیکن ابھی بہت سے سوالات باقی ہیں جن کے جوابات ملنے پر ہی مستقبل کی سیاست کے خدوخال کا حساب کتاب لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جتنی بیتابی کے ساتھ زرداری صاحب عمران خان کی گاڑی پر سوار ہونے کیلئے تیار ہیں‘ کیا پی پی پی کے عام کارکنوں کی بھی یہی سوچ ہے؟ دوسرے کیا بلاول بھٹو زرداری اپنے پاپا کی سیاسی لائن سے متفق ہیں؟ ایک بیان میں زرداری صاحب خود تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کی اور بلاول بھٹو کی سیاسی سوچ اور اپروچ میں فرق ہے۔ پیپلز پارٹی کے کئی اور سینیٹرز اور وفادار رہنمائوں نے آنے والے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے سیاست میں ''خلائی مخلوق‘‘ کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پی ٹی آئی کوشش کرے گی کہ پی پی پی کی مدد کے بغیر مرکز میں حکومت تشکیل دے سکے‘ اور اس کیلئے وہ کراچی کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اگر اردو بولنے والی آبادی کے ایک بڑے حصے کی مدد سے قومی اسمبلی کی 20 سے 25 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تو منتخب ارکان وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان کا ساتھ دیں گے۔ اسی طرح بلوچستان سے کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی بجائے آزاد امیدواروں کے کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ پی ٹی آئی ان پر بھی تکیہ کئے ہوئے ہے اور اس طرح زرداری سے ایک دفعہ پھر ہاتھ ملانے سے عمران خان کو جو ایمبارسمنٹ (Embarrassment) ہو سکتی ہے‘ اس سے بچا جا سکتا ہے۔