"DRA" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کا خطرہ

ایک ایسے وقت میں جبکہ شام میں خانہ جنگی کی چنگاریاں ابھی سلگ رہی ہیں اور یمن میں بھی صورتحال مخدوش ہے‘ مشرق وسطیٰ میں ایک اور بحران تیزی سے سر اٹھا رہا ہے، اور وہ ہے امریکہ اور ایران کے درمیان تصادم کا خطرہ۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹھیک ایک برس قبل ایران کے ساتھ مغربی ملکوں کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرکے ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ گزشتہ ایک برس میں ٹرمپ نے ان پابندیوں میں بتدریج اضافہ کیا اور انہیں مزید سخت بنا دیا ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے آٹھ ملکوں کو محدود مدت کیلئے ایران سے تیل خریدنے کی جو اجازت دے رکھی تھی، وہ ختم کر دی گئی ہے اور صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے تیل کا ایک قطرہ بھی ملک سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ ایران کی معیشت کا سارا دارومدار تیل کی برآمد پر ہے۔ اس لیے اس کی تیل کی برآمدات پر پابندی اس کی معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے امریکہ کے حالیہ اقدامات پر سخت ردّ عمل ظاہر کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر اُس کے تیل کی باہر کی دنیا کو سپلائی سے روکا گیا تو ایران آبنائے ہرمز کو بلاک کر دے گا۔ آبنائے ہُرمز خلیج فارس اور بحیرہ عرب کے درمیان ایک تنگ آبی راستہ ہے جس کے ذریعے ایران سمیت خلیج فارس کے دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک کے ٹینکرز گزرتے ہیں۔ اس تنگ آبی راستے کی بندش سے تیل کی عالمی منڈی میں شدید بحران آ سکتا ہے؛ چنانچہ امریکہ نے ایران کی اس دھمکی پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور ایران پر مزید دبائو ڈالنے کیلئے اپنے طیارہ بردار جہاز ''ابراہم لنکن‘‘ اور اسی سے منسلک دیگر بحری جہاز اور بھاری بمبار طیاروں کو مشرق وسطیٰ کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ 
بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے ارد گرد کے سمندروں میں امریکہ کے بحری اور فضائی جہاز پہلے سے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بحرین اور قطر کے بحری اور فوجی اڈوں پر بھی امریکہ کے بحری جہاز اور طیارے موجود ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ کی طرف سے جبرالٹر کے راستے مزید بحری جہاز کی مشرق وسطیٰ میں صف آرائی، امریکہ کے جارحانہ عزائم کا پتہ دیتی ہے۔ امریکی صدر کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی جان بولٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران کی طرف سے خلیج فارس میں امریکی اور اُس کے اتحادیوں کی مفادات پر حملے کا خطرہ ہے۔ تازہ ترین امریکی کمک بھیجنے کا مقصد ایران پر واضح کرنا ہے کہ اگر اس کی طرف سے ایسا کوئی حملہ ہوا تو امریکہ پوری طاقت سے اس کا جواب دے گا۔ امریکہ کی طرف سے اس قسم کا بیان سوائے ایک کھلی اشتعال انگیزی کے اور کچھ نہیں‘ کیونکہ ایران کی طرف سے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں امریکی یا خطے میں امریکہ کے اتحادی اور دوست ممالک کے ٹھکانوں پر حملوں کے احکامات کے کوئی آثار نہیں۔ پھر ٹرمپ کیوں ایران کے در پے ہے؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنا مشکل نہیں۔ 1979ء میں اسلامی انقلاب سے قبل تہران ایشیا میں امریکی سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ اس کی وجہ ایران کی جغرافیائی پوزیشن اور سابق شاہ ایران کے دور میں ایران کی امریکہ نواز خارجہ پالیسی تھی۔ لیکن امام خمینی کی قیادت میں انقلاب نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی اور امریکہ نے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطوں میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے حکمت عملی کا جو ڈھانچہ کھڑا کر رکھا تھا، وہ دھڑام سے نیچے آ گرا۔ جس طرح چین میں کمیونسٹ حکومت کے قیام سے مشرق بعید اور جنوب مشرقی ایشیا میں امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا، بالکل اسی طرح 1979ء میں ایران کے اسلامی جمہوری انقلاب نے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ امریکہ نے ایران کی حکومت کو اس کے قیام کے فوراً بعد ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس کیلئے پہلے عراق سے ایران پر بلا اشتعال اور بلا جواز حملہ کروایا اور اس کے بعد ایران پر دبائو ڈالنے کیلئے 1981ء میں خلیجی تعاون تنظیم (GCC) قائم کی‘ مگر چین کی طرح ایران نے بھی اپنی پُرامن خارجہ پالیسی سے امریکہ کو براہ راست حملے کا موقعہ نہ دیا۔
1972ء کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات نارمل ہو گئے تھے‘ مگر ایران کے بارے میں امریکہ کی عناد اور دشمنی پر مبنی پالیسی ختم نہ ہو سکی۔ 2015ء میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں امریکہ سمیت پانچ دیگر ممالک‘ جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چار مستقل ممبران اور جرمنی شامل ہیں، نے ایران کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امید تھی کہ اس معاہدے کے بعد ایران اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو گا‘ کیونکہ اس معاہدے میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے ناتے سے جو اقتصادی پابندیاں لگا رکھی تھیں، انہیں ختم کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ یورپی ممالک تو اس سلسلے میں بہت پُر جوش تھے اور وہ ایران کے ساتھ فوری تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بحالی کے خواہاں تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہوتے ہی اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا عمل شروع کر دیا اور آخر کار 8 مئی 2018ء کو امریکہ نے نہ صرف اس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا بلکہ ایران پر تجارتی اور اقتصادی پابندیاں بھی دوبارہ نافذ کر دیں۔ ان پابندیوں کو گزشتہ ایک برس میں امریکہ نے بتدریج سخت کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ایران پر اقتصادی پابندیوں کے نفاذ نے ایک خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف مغربی ایشیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے، بلکہ عالمی امن اور استحکام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ اب تک کیے جانے والے ہر قسم کے اشتعال انگیز اقدامات سے امریکہ، ایران کو مرعوب کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ ایران نے بھی جوہری معاہدے سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے دنیا سے تجارتی رابطوں کو بلاک کرنے کی کوشش کی، تو وہ آبنائے ہرمز کے راستے تیل بردار جہاز اور ٹینکرز کی آمدورفت بند کر دے گا۔
حالات اگر اس نہج تک پہنچ جاتے ہیں، تو مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ جو اس خطے میں اب تک لڑی جانے والی تمام جنگوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہو گی، کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ امریکہ کی طرف سے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ارد گرد کے سمندروں میں مزید بحری قوت جمع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران پر ایک بھرپور حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ اس صورتحال سے ایران کے ہمسایہ ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ اور مغربی یورپی ممالک‘ جنہوں نے امریکہ کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کئے تھے‘ بھی پریشان ہیں۔ روس اور چین نے امریکی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے مؤقف کی حمایت کی اور کہا ہے کہ کشیدہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے جوہری معاہدہ سے پیچھے ہٹنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اسی طرح ایران کے خلاف تجارتی پابندیوں کے نفاذ کی بھی وہ مخالفت کر رہے ہیں، لیکن امریکہ کو ناراض کرکے ایران کا ساتھ دینے پر تیار نہیں۔ یہاں تک کہ 2015ء کے معاہدے کے تحت ان یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ تجارت اور کاروبار کو دوبارہ شروع کرنے کے جو وعدے کیے تھے، ان پر بھی وہ عمل پیرا نہیں ہو رہے کیونکہ اس صورت میں ان ممالک کو امریکہ کی طرف سے تادیبی کارروائیوں کا ڈر ہے۔ ایسی صورتحال میں ایران کا یہ موقف درست ہے کہ اگر امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک 2015ء کے معاہدے کی شرائط پوری نہیں کرتے تو ایران پر بھی ان کی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور اسے بھی اس معاہدے سے بتدریج نکل کر یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا حق ہے۔ اور اس سلسلے میں ایران نے چند اقدامات کا آغاز بھی کر دیا ہے؛ اگرچہ ان اقدامات کا براہ راست تعلق ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی یورینیم سے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران اب بھی 2015ء کے معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے مگر صدر ٹرمپ امریکہ کو معاہدے سے الگ کرنے کے بعد ایران کے خلاف پابندیوں کے نفاذ اور دیگر اشتعال انگیز کارروائیوں سے ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کا جواز حاصل ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں