قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان جولائی کے پہلے ہفتے میں ہونے والے مذاکرات کے ساتویں رائونڈ کے اختتام پر امریکی ایلچی اور وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کے اب تک جتنے رائونڈ ہوئے ہیں ان میں تازہ ترین یعنی یہ ساتواں رائونڈ سب سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ طالبان نے بھی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بار مطمئن ہیں۔ اس رائونڈ کا ایک خصوصی پہلو طالبان اور دیگر افغان دھڑوں‘ جن میں سیاسی رہنما‘ سول سوسائٹی کے ارکان‘ صحافی‘ دانشور اور خواتین کے نمائندوںکے درمیان ہونے والی کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں کابل حکومت کے نمائندے بھی شامل تھے؛اگرچہ طالبان نے انہیں سرکاری نمائندے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ یہ سب اپنی ذاتی حیثیت سے اس میں حصہ لے رہے ہیں‘ تاہم اس کانفرنس کے انعقاد سے ملک میں مصالحت اور جنگ بند کرنے کیلئے فضا کافی حد تک سازگار ہو گئی ہے‘ کیونکہ طالبان کے دورِ اقتدار (2001-1996) کے دوران عورتوں اور اقلیتوں کے بارے میں سخت گیر پالیسیوں کے باعث سول سوسائٹی خصوصاً عورتوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں میں طالبان کے بارے میں متعدد تحفظات تھے۔ مگر اس کانفرنس کے اختتام پر جو بیان جاری کیا گیااس میں کہا گیا کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو عورتوں کو تعلیم کے حصول اور ملازمت اختیار کرنے کی اجازت ہوگی اور انہیں وہ تمام حقوق میسر ہوں گے جن کی اسلام اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ تمام مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا۔
افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت اللہ خلیل کرزئی کے مطابق کانفرنس کے دوران بعض مواقع پر نہایت جذباتی منظر دیکھنے میں آئے اور فریقین نے ایک دوسرے کی بات کو انتہائی انہماک اور غور سے سنا ؛حالانکہ وہ اس وقت بھی میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ گزشتہ اٹھارہ برس سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار افغان دھڑے جنگ سے اُکتا چکے ہیںاور وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کی طرف مائل کرنے میں جہاں جنگ کی تباہ کاریوں ‘خصوصاً شہری آبادی کی طرف سے اٹھائے جانے والے روز افزوں جانی نقصان کا بڑا حصہ ہے وہاں بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں مثلاً چین‘ روس اور پاکستان کا بھی بہت اہم کردار شامل ہے۔ مذاکرات کے موجودہ سلسلے کے آغاز پر طالبان کا رویہ انتہائی غیر لچک دار تھا اور ان کا اصرار تھا کہ وہ صرف اور صرف افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا پر بات چیت کریں گے۔ انہوں نے صدر اشرف غنی کی حکومت سے کسی قسم کا رابطہ کرنے سے انکار کر دیا تھاکیونکہ وہ اسے امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں‘ لیکن روس‘ چین کے علاوہ پاکستان‘ قطر‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی کوششوں سے طالبان نے اپنے مؤقف میں تھوڑی سی لچک پیدا کی ہے۔ وہ نہ صرف مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر آمادہ ہوئے بلکہ مخالف دھڑوں ‘جن میں حکومتِ افغانستان کے نمائندے بھی شامل تھے‘ سے ملاقات پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ ساتویں رائونڈ میں امریکی اور طالبان وفود کے درمیان بات چیت اور کانفرنس میں طے پانے والے نکات کے نتیجے میںافغانستان میں جنگ بند کرنے اور مصالحت کے فروغ کیلئے ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو گیا ہے‘ جس کی تفصیلات طے کرنے کے بعد ستمبر میں اس کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا۔تاہم مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان دو نکات پر اتفاق ہو گیا ہے‘ ایک یہ کہ امریکہ افغانستان سے اپنی اور نیٹو افواج کے انخلا کے شیڈول کا جلد اعلان کر ے گا اور طالبان نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سر زمین سے کسی دہشت گرد گروپ جن میں القاعدہ اور داعش شامل ہیں‘ کو کسی اور ملک کے خلاف سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ طالبان کی طرف سے یہ یقین دہانی ایک اہم پیش قدمی ہے ‘کیونکہ اس سے قبل طالبان داعش کے خلاف کارروائی پر تو آمادہ تھے لیکن القاعدہ کا نام نہیں لیتے تھے ‘کیونکہ طالبان کے سابقہ دور میں اُن کے القاعدہ کے ساتھ گہرے روابط تھے اور طالبان تحریک کے بانی اور اسلامی امارات افغانستان کے امیرمُلا عمر نے 9/11 حملے میں مبینہ طور پر ملوث اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہی انکار اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کا باعث بنا۔ القاعدہ سے لاتعلقی اور اسے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہ دینے کا طالبان کا وعدہ اہم علاقائی‘ بلکہ عالمی مضمرات کا حامل ہے کیونکہ بعض علاقائی طاقتیں مثلاً بھارت‘ افغانستان میں طالبان کی دوبارہ حکومت کی صورت میں اپنی سلامتی سے متعلق بہت مضطرب تھیں۔ روس اور چین نے بھی امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ کرتے وقت علاقائی اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اب جبکہ طالبان نے القاعدہ کو بھی اُن دہشت گرد گروپوں میں شامل کر لیا ہے جن کو افغانستان کے ہمسایہ یا خطے میں واقع ممالک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘اس طرح افغانستان میں قیام ِامن کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ دور ہو گئی ہے‘ لیکن اب بھی منزل تک پہنچنے کیلئے بہت سی رکاوٹوں کو دور کرنا پڑے گا۔ ان میں فوری جنگ بندی اور کابل میں افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے براہ راست مذاکرات ہیں ‘تا کہ جنگ بندی کے بعد ملک میں قائم کئے جانے والے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے پر اتفاق ہو سکے۔ جہاں تک فوری جنگ بندی کا تعلق ہے‘ طالبان اس پر راضی نہیںکیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر غیر ملکی فوجوں کے انخلا سے پہلے جنگ بندی کا اعلان کر دیا جائے تو ان کی کمانڈ میں لڑنے والے افغان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں انہیں دوبارہ گھروں سے بلانا اور جنگ کو ایک دفعہ پھر اُس کی موجودہ سطح پر لانا نا ممکن ہو جائے گا۔ لیکن امریکی انخلا سے پہلے جنگ بندی اور کابل حکومت کے ساتھ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر مُصرہے۔ زلمے خلیل زاد نے ایک موقع پر کہا تھا کہ یہ دونوں معاملات اور ان سے طالبان کا اتفاق‘ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک جامع معاہدہ کا لازمی حصہ ہیں اور ان کے بغیر افغانستان میں معاہدے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان‘ چین اور روس بھی اسی مؤقف کے حامی ہیں۔
بیجنگ میں امریکہ‘ روس اور چین کی سہ فریقی کانفرنس‘ جس میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے‘ کے ایک حالیہ اجلاس میں طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ طالبان امن مذاکرات کو کامیاب کروانے کیلئے فوری جنگ بندی اور صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں۔ اب تک تو طالبان نے اس پر سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے‘ لیکن میرا خیال ہے کہ طالبان زیادہ دیر تک اپنے اس مؤقف پر قائم نہیں رہ سکیں گے‘ کیونکہ اُن پر سخت بیرونی دبائو ہے اور دبائو ڈالنے والوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ افغانستان کے اندر جنگ بندی کے حق میں رائے عامہ دن بدن تقویت پکڑتی جا رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طالبان کے حملوں میں شہریوں‘ خصوصاً بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس افغانستان میں جنگ کی وجہ سے 3804 شہری جاں بحق ہوئے جن میں 400 بچے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں ملک کے دو مختلف مقامات پر بم دھماکوں کی وجہ سے 12 بچے جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔ مذاکرات کے ساتویں رائونڈ کے دوران طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شہریوں اور بچوں کو حملوں کا نشانہ نہیں بنائیں گے‘لیکن افغانستان میں موجودہ جنگ کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر وہ جاری رہتی ہے تو شہریوں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح افغانستان میں سول سوسائٹی اور امن پسند شہریوں کی جانب سے طالبان پر فوری جنگ بندی پر راضی ہونے کیلئے دبائو بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی علاقائی طاقتیں مثلاً روس‘ چین‘ پاکستان‘ قطر‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی ان دونوں معاملات میں طالبان سے لچک ظاہر کرنے پر زور دیا جائے گا۔ طالبان کی طرف سے ان دونوں مطالبات کو تسلیم کرنے میں دیر تو ہو سکتی ہے مگر آخر کار انہیں بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی دبائو کے سامنے اپنے غیر لچک دار رویے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔