وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کے اختتام پر امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران وزیراعظم پاکستان نے صدر ٹرمپ سے وعدہ کیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے طالبان پر بھرپور زور دیں گے۔ امریکی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے ساتھ ملاقات میں بھی افغان مسئلے کے بارے میں مزید وعدے کئے ہیں۔ اس امریکی ترجمان کے مطابق امریکی حکومت، خصوصاً صدر ٹرمپ اب اس بات کے منتظر ہیں کہ پاکستان ان وعدوں کو کب اور کہاں تک پورا کرتا ہے۔ افغان امور کے ماہرین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے دورہ کے موقعہ پر صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے بارے میں غیر متوقع خیر سگالی کے باوجود مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات کا کلیتاً انحصار اس بات پر ہو گا کہ وزیر اعظم واشنگٹن میں امریکیوں سے جو وعدے کر کے آئے ہیں وہ کہاں تک پورے کئے جاتے ہیں کیونکہ صدرِ امریکہ افغانستان میں جلد از جلد سمجھوتہ چاہتے ہیں، تاکہ اگلے برس نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اُن کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو سکیں۔ لیکن اس سمجھوتے میں دو باتوں کا شامل ہونا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ افغانستان میں فوری جنگ بندی ہو اور دوسرے طالبان، افغان حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت پر آمادہ ہو جائیں۔ امریکی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان اور ان کی ٹیم نے بھی امریکہ کو اسی بات کا یقین دلایا ہے کہ پاکستان ان مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن طالبان کی طرف سے ایک حالیہ بیان نے‘ جس میں انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پر ان کے موقف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے، نئے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ مثلاً کیا پاکستان، طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ اور اگر پاکستان اس میں کامیاب نہیں ہوتا تو پاک، امریکہ تعلقات کا کیا بنے گا؟ کیونکہ بیشتر مبصرین کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں سمجھوتے سے متعلق امریکہ نے پاکستان سے جو توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، اگر وہ پوری نہ ہوئیں تو پاک، امریکہ تعلقات واپس اسی پوزیشن پر چلے جائیں گے جہاں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ سے پہلے تھے۔ یہ صورت حال پاکستان کیلئے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دے گی۔ اور غالباً، پاکستان کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں امن سمجھوتے کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی گارٹنی نہیں دے سکتا۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پاکستان اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس‘ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں جنگ بندی اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کو ممکن بنانے کیلئے پوری طرح کمر کس لی ہے کیونکہ پاکستان کی دعوت پر افغان طالبان کے ایک وفد کی عنقریب اسلام آباد آمد اور وزیر اعظم سے اُس کی ملاقات کے امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اس سلسلے میں جلد افغانستان کا دورہ کریں گے لیکن اصل سوال بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پاکستان طالبان کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ بدقسمتی سے ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس سوال کا جواب ہاں میں دینا مشکل نظر آتا ہے۔
طالبان 1994ء میں افغانستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئے تھے۔ 1996ء میں انہوں نے کابل پر قبضہ کر کے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس حکومت کی عملداری اگرچہ ملک کے 90 فیصد حصے پر قائم تھی؛ تاہم دنیا کے 200 ممالک میں سے صرف تین نے ان کی حکومت کو تسلیم کر کے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔ ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ مگر شاید بہت سے لوگ اس حقیقت سے واقف نہ ہوں گے کہ کابل پر طالبان کی حکومت کے قیام اور افغانستان میں حالات مستحکم ہونے کے بعد جلد ہی حکومتی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سب سے پہلے طالبان کی حکومت نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ جب چاہیں، جہاں سے مرضی چاہیں بغیر پاسپورٹ کے سرحد کو عبور کریں گے۔ جب پاکستان کی حکومت نے اُن کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ یہ ایک بین الاقوامی سرحد ہے تو طالبان نے جواب دیا کہ افغانستان اور پاکستان دو اسلامی ممالک ہیں، ان کے درمیان سرحد کیسی؟ جب یہ مسئلہ زیادہ سنگین صورت اختیار کر گیا تو لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، جو مشرف کی کابینہ میں وزیر داخلہ تھے‘ کی قیادت میں حکومت پاکستان کے ایک وفد نے قندھار میں ملا عمر سے ملاقات کی اور بڑی مشکل سے طالبان قیادت کو پاسپورٹ استعمال کرنے پر آمادہ کیا۔ دوسرا مسئلہ ٹرانزٹ ٹریڈ کا تھا جس کے ذریعے طالبان کے دور میں بھی افغانستان ایسی اشیا درآمد کر رہا تھا جن کی ملک میں بالکل کھپت نہیں تھی۔ مثلاً ٹیلی ویژن سیٹ، شیونگ کا سامان اور کاسمیٹکس کیونکہ طالبان نے ٹیلی ویژن، مردوں کی شیو اور عورتوں پر کاسمیٹکس کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ اس لئے یہ اشیا پاکستان کو سمگل کر دی جاتی تھیں۔ پاکستان نے جب ان اشیا کو ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعہ منگوانے پر پابندی عائد کرنے کو کہا تو طالبان کی حکومت نے پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیسرا مسئلہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں پاکستانی دہشت گردوں کے ملوث ہونے اور واردات کے بعد افغانستان بھاگ جانے کا تھا جہاں اُنہیں باآسانی پناہ مل جاتی تھی۔ بلکہ پاکستانی ذرائع کے مطابق ان دہشت گردوں کی تربیت کیلئے افغانستان میں تربیتی کیمپ بھی قائم کئے گئے تھے۔ ان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث اور درجنوں افراد کے ایک قاتل کا معاملہ بہت مشہور تھا۔ جب پاکستان نے ان دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کے تربیتی کیمپ بند کرنے کا مطالبہ کیا تو پہلے طالبان نے ان کی موجودگی سے انکار کیا اور جب جنرل معین الدین حیدر کے مطابق انہیں ناقابل تردید ثبوت دکھائے گئے تو انہوں نے پاکستان کے مطالبے کے مطابق عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر جنرل صاحب کے مطابق یہ وعدہ کبھی ایفا نہیں ہوا۔ ایک اور معاملہ یا مسئلہ بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو مسمار کرنے کے بارے میں طالبان کا اعلان تھا۔ اس اعلان سے پوری دنیا میں شور مچ گیا تھا کیوں کہ مہاتما بدھ کا یہ ہزاروں برس پرانا مجسمہ نہ صرف دنیا بھر میں بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے متبرک تھا بلکہ اقوام متحدہ بھی طالبان کو اس اقدام سے باز رکھنے کیلئے حرکت میں آ گئی تھی کیونکہ یہ مجسمہ جو کہ ایک بہت بڑی چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا تھا، یونیسکو کے تاریخی ورثے کی فہرست میں شامل تھا۔ طالبان کو اس کی تباہی سے باز رکھنے کیلئے پاکستان کو چنا گیا، کیوں کہ اس وقت بھی پاکستان سے باہر کی دنیا سمجھتی تھی کہ طالبان، پاکستان کے زیر اثر ہیں۔ جنرل معین الدین حیدر کے مطابق جب طالبان نے اس نادر مجسمے کو مسمار کرنے کا اعلان کیا تو مشرف کی حکومت کو سخت عالمی دباؤ (خصوصاً جاپان اور سری لنکا جیسے ممالک جہاں بدھ مت کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے، کی طرف سے احتجاج کے بعد) کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ مشرف کی ہدایت پر وزیر داخلہ جنرل معین الدین کی قیادت میں ایک وفد تشکیل دیا گیا اور اس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ وہ قندھار میں ملا عمر سے ملاقات کر کے طالبان کو اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ لیکن یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ طالبان کے ہاتھوں مہاتما بدھ کا یہ قدیم مجسمہ چکنا چور ہو گیا۔
ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان کسی کا اثر و رسوخ قبول نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے ساتھ اُن کے گہرے اور اہم روابط رہے ہیں، مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ پاکستان کے کہنے پر اپنے دیرینہ موقف سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اسی وجہ سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ کو یقین دہانیاں کروانے کے باوجود پاکستان افغانستان میں قیام امن کی تلاش میں مددگار تو ثابت ہو سکتا ہے، منزل مقصود پر پہنچنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔