"DRA" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات: حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات کیوں؟

انتخابی اصلاحات کا مسئلہ اتنا ہی پُرانا ہے‘ جتنا پاکستان کی تاریخ اور آئندہ بھی ان کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی کیونکہ یہ سیاسی ارتقائی عمل کا ناگزیر حصہ ہے۔ 1947 میں آزادی کے موقع پر عام بالغ رائے دہی (Universal adult Franchise) کے اصول کو ملک کے آئندہ انتخابات کی بنیاد بنا کر اس اصلاحی عمل کا آغاز کیا گیا تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935‘ جسے پاکستان اور بھارت‘ دونوں کو چند تبدیلیوں کے ساتھ عبوری طور پر اپنا آئین تسلیم کرنا پڑا‘ کے تحت رائے دہی (Franchise) بہت محدود تھی‘ یعنی ووٹ دینے یا انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کا حق صرف ان اشخاص تک محدود تھا‘ جو تعلیم‘ ٹیکس یا جائیداد کی چند شرائط پوری کر سکتے تھے۔ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والی سب سیاسی جماعتیں‘ جن میں مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی بھی شامل تھیں‘ ان پابندیوں کو ختم کر کے عام بالغ رائے دہی کے اصول کے نفاذ کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اس لئے آزادی حاصل کرنے کے بعد دونوں ڈومینینز (Dominions) کا پہلا اور سب سے اہم فیصلہ انتخابی عمل کو تمام پابندیوں سے آزاد کر کے تمام بالغ شہریوں کو بلا لحاظ جنس‘ مذہب‘ ذات‘ رنگ اور نسل کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے اور بطور امیدوار حصہ لینے کا حق دار قرار دے دیا گیا۔
یہ اعلان دراصل جمہوریت کی روح کے مطابق اور آزادی کا سب سے بڑا تحفہ تھا‘ اور چونکہ اسے تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی‘ اس لئے عوام کے تمام حلقوں نے اس کا خیر مقدم کیا‘ لیکن اس اہم تبدیلی کے باوجود پاکستان (یا بھارت) کے انتخابی نظام میں متعدد خامیاں موجود تھیں‘ جنہیں دور کرنے کی کوشش کی گئی‘ مثلاً انگریزوں کے زمانے سے ہمارا انتخابی نظام سنگل کانسی چواینسی فرسٹ پاس پوسٹ ووٹنگ کے اصول پر قائم ہے‘ یعنی قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے غیر محدود امیدواروں کو مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ اس سسٹم کے دو بڑے نقائص ہیں۔ امیدواروں کی کثیر تعداد اور ٹرن آئوٹ کم ہونے کی وجہ سے بعض اوقات 5 فیصد تک ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار لاکھوں کی آبادی پر مشتمل حلقے کا نمائندہ منتخب ہو جاتا ہے۔ دوسرے‘ انتخابات میں کسی پارٹی کی طرف سے حاصل کردہ ووٹ اسمبلی میں اس کی نشستوں کے متناسب نہیں ہوتے مثلاً بھارت میں 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے ملک کے کل ووٹوں کا تقریباً ایک تہائی‘ 37.45 فیصد حاصل کیا تھا‘ مگر لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے اس کے پاس دو تہائی سے بھی زیادہ نشستیں ہیں۔
یہ مسئلہ پاکستان کو بھی درپیش ہے۔ پاکستان کے گزشتہ تمام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جس تناسب سے کسی پارٹی نے ووٹ حاصل کئے‘ وہ ہائوس میں اس کی سیٹوں کی تعداد کی شکل میں منعکس نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کے پیش نظر پاکستان کے آئین کی تشکیل کے لئے قائم کردہ ''بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘‘ (Basic Principles Committee) نے 1950 میں پارلیمانی انتخابات میں متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کو جزوی طور پر متعارف کرنے کی سفارش کی تھی۔ 1970 کے انتخابات کے بعد چھوٹی سیاسی جماعتوں‘ خصوصاً مذہبی‘ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے متناسب نمائندگی پر زور دیا جانے لگا‘ مگر 1973 کے آئین میں سنگل کانسٹی چواینسی کا اصول اس لئے برقرار رکھا گیا کہ اس پر بیشتر سیاسی پارٹیوں کی متفقہ رائے کا حصول آسان تھا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ وفاقی حکومت نے بھی انتخابی اصلاحات کے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے‘ مگر اس پر حزبِ اختلاف کی حمایت حاصل کرنے میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی‘ مثلاً ایک طرف سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر‘ اپوزیشن کے ساتھ اس مقصد کے لئے بات چیت کرنے کی خاطر کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں‘ اور دوسری طرف حکومت آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) استعمال کرنے اور سمندر پار پاکستانیوں کو حق دلانے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی نیت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر صلاح مشورے کے ذریعے فیصلہ کرنا نہیں بلکہ اپنے یک طرفہ فیصلوں پر اپوزیشن سے منظوری کا ٹھپہ لگوانا ہے۔ دوسرے‘ پیکیج کے نکات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات کو ایک ٹیکنیکل مسئلہ سمجھتی ہے جسے حل کرنے کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو بطور ایک حل کے تجویز کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اپوزیشن بھی اس نسخے پر دستخط کر دے حالانکہ ٹیکنیکل کے علاوہ انتخابی اصلاحات یا انتخابات میں دھاندلی کے خدشات کے سدِ باب کے اور بھی پہلو ہیں‘ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ ایک مخصوص تناظر میں ٹیکنیکل پہلوئوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں مثلاً پاکستان میں انتخابات کے متنازع ہونے کی بڑی وجہ پولنگ کے روز جعلی ووٹ ڈالنے‘ بیلٹ باکس اٹھانے یا پولنگ ایجنٹ اغوا کرنے کے واقعات سے زیادہ پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے بعد حکومت کی طرف سے ایسے ہتھکنڈوں کا استعمال ہے‘ جن کا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے علاج ممکن نہیں۔
پنجاب میں ڈسکہ کے ضمنی انتخاب سے ثابت ہو چکا ہے کہ انتخابی عمل کو مخالف فریق کے لئے غیر موافق بنانے کے لئے حکومت کے پاس بہت سے وسائل ہیں۔ آج تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جس کے ذریعے 20 سے زائد پریذائیڈنگ افسروں کے اغوا کو روکا جا سکے۔ اصل بات نیت کی ہے۔ اگر نیت خراب ہو تو کسی بھی حکومت کی جانب سے انتخابی عمل کو اپنے حق میں کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت‘ جہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک عرصے سے زیر استعمال ہے‘ اور جس کے الیکشن کمیشن کو آزاد اور با اختیار سمجھا جاتا ہے‘ میں حالیہ ریاستی انتخابات میں الیکشن کمیشن پر جانب داری اور بی جے پی کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔ اگرچہ بی جے پی کو ریاست میں ترنمول کانگریس کی ممتا بینرجی کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی اور اسے 294 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف 80 حاصل ہو سکیں‘ لیکن ترنمول کانگریس کی انتخابی مہم کے انچارج پرشانت کشور کا دعویٰ ہے کہ اگر بھارت کا الیکشن کمیشن بنگال میں پولنگ کے عرصے کو غیر ضروری طور پر طوالت نہ دیتا اور انتخابی مہم میں بھارتی آئین پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی کو مذہب اور ذات پات کا کارڈ کھیلنے کی اجازت نہ دیتا تو بی جے پی اتنے ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی۔
پاکستان کے 2018 کے انتخابات کے موقع پر یورپی یونین کی آبزرور ٹیم نے پاکستان کے انتخابی عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا ''یہ بنیادی مسئلہ لیگل فریم ورک اور اس کی بعض دفعات پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کا ہے۔ اس سے آئندہ انتخابات میں دھاندلی اور غیر قانونی طریقوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس کا حل ایسی انتخابی اصلاحات میں ہے‘ جس کے تحت محض ٹیکنالوجیکل ہی نہیں بلکہ ادارہ جاتی (Institutional)‘ مالی اور سماجی پہلوئوں کو بھی مدِ نظر رکھا جائے ‘‘۔ چونکہ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ پیکیج نہ صرف یک طرفہ ہے بلکہ صرف ٹیکنالوجیکل پہلوئوں پر فوکس کرتا ہے‘ اس لئے اسے حزبِ مخالف کی حمایت حاصل نہیں ہو سکے گی۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے 2018 کے انتخابات میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت اور عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اگر حکومت انتخابی اصلاحات لانے میں واقعی سنجیدہ اور مخلص ہے تو اسے حزبِ مخالف کے ساتھ پہلے ایک ڈائیلاگ کے ذریعے اس کے تحفظات اور خدشات دور کرنے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں