یوکرین میں حملہ آور روسی فوجوں اور یوکرینی مزاحمت کاروں کے درمیان جنگ کو تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ اس دوران فریقین کے مابین جنگ بندی اور مصالحت کی متعدد کوششیں کی گئیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں‘ بلکہ جنگ پہلے سے زیادہ تیز اور ہولناک ہوتی جا رہی ہے۔ بعض دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے میں یوکرین کی جنگ تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ امریکہ معاہدۂ شمالی اوقیانوس (نیٹو) کے ذریعے روس کے خلاف جدید ترین اسلحہ‘ گولہ بارود اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یوکرین میں روسی افواج کے داخلے کی اصل وجہ امریکہ کی طرف سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کا منصوبہ تھا‘ جس پر ایک عرصے سے عمل درآمد ہو رہا تھا۔
یوکرین کے بعد امریکہ اب شمالی یورپ کے دو دیگر ممالک؛ فن لینڈ اور سویڈن کو بھی نیٹو کی رکنیت پیش کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں اور نیٹو کے درمیان اس سے قبل متعدد شعبوں میں قریبی تعاون تھا‘ مگر اب انہوں نے دفاعی معاہدے کی رکنیت کے لیے باقاعدہ خواہش کا اظہار کیا ہے‘ جسے امریکہ نے منظور کر لیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن کی طرف سے نیٹو میں شمولیت کا فیصلہ یوکرین پر روسی حملہ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ جزوی طور پر تو سچ نظر آتا ہے لیکن اگر ہم امریکہ یورپ تعلقات کے تاریخی پس منظر اور جیو پولیٹکل محرکات کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یوکرین پر روسی حملہ تو محض ایک بہانہ ہے۔ اصل میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد‘ امریکہ کی طرف سے پورے یورپ میں اپنی دفاعی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے جو منصوبہ شروع کیا گیا تھا‘ یوکرین میں روسی فوجوں کے خلاف ہتھیار اور اسلحہ فراہم کرنے کے بعد فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کا فیصلہ اس کا ایک حصہ ہے۔ امریکہ یہ مقصد نیٹو کو روس کی سرحدوں تک وسعت دے کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ ایک ایسے اقدام پر‘ جسے روس انتہائی اشتعال انگیز قرار دے چکا ہے‘ کیوں مصر ہے؟ اس کی وجہ ہے کہ امریکہ کسی بھی یورپی ملک کو پورے براعظم یورپ پر اپنی فوجی اور سیاسی سیادت قائم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘ کیونکہ شمالی بحر اوقیانوس کے مشرقی ساحل پر مشتمل یہ خطہ امریکہ کی دفاعی حکمت عملی کا ایک اہم ستون ہے۔
ماضی میں یورپی قوموں کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں میں امریکہ نے صرف اس وجہ سے مداخلت کی تھی کہ وہ حریف قوتوں میں سے کسی کو بھی یورپ پر اپنی مکمل بالا دستی قائم کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہ تھا۔ آج کل کے یورپ میں روس واحد ملک ہے جو اپنے رقبے‘ آبادی‘ قدرتی اور معدنی وسائل اور عسکری قوت کی بدولت پورے یورپ پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکی دفاعی ماہرین کے جائزے کے مطابق سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کی وجہ سے یورپ میں نہ صرف داخلی بلکہ خارجہ سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے متعدد اقدامات لازمی ہیں۔ ایک‘ نیٹو کی مضبوطی اور دوسرے‘ روس پر دباؤ تاکہ سرد جنگ کے زمانے کی طرح وہ ایک دفعہ پھر مشرقی اور وسطی یورپ پر اپنا غلبہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ نیٹو‘ جسے 1949ء میں مغربی یورپی ممالک کے خلاف ممکنہ روسی حملے کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا‘ کو سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بھی قائم رکھا گیا‘ حالانکہ اس کے مقابلے میں 1955ء میں قائم ہونے والے ''وارسا پیکٹ‘‘ کو 1991ء میں ختم کر دیا گیا تھا‘ لیکن امریکہ یورپ کا میدان کسی صورت بھی روس کے لیے کھلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا‘ جو 1991ء کے واقعات کی وجہ سے مالی لحاظ سے تو کمزور ہو چکا تھا مگر ابھی تک دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی قوت ہے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور بے شمار معدنی اور قدرتی وسائل کے علاوہ دنیا میں تیل اور گیس کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک بھی ہے۔ دیگر الفاظ میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنے کے بعد روس کے پاس ایک دفعہ پھر سپر پاور کا مقام حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ صدر ولادیمیر پوتن کی قیادت میں روس نے اپنے معاشی اور مالی مسائل پر قابو پانے کے بعد عسکری لحاظ سے اتنی قوت حاصل کرلی ہے کہ وہ اب نہ صرف اپنی سرحدوں سے پار علاقوں سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کر سکتا ہے بلکہ سرد جنگ کے زمانے میں جو علاقے روایتی طور پر اس کے حلقۂ اثر میں شامل تصور ہوتے تھے‘ اس میں بھی وہ مداخلت کر سکتا ہے۔ اول الذکر کی مثال کریمیا کا الحاق (2014ء) ہے اور یوکرین میں فوجی مداخلت (2022ء) کو بھی بطورِ مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ آخر الذکر کی مثال شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو روس کی طرف سے امداد کی فراہمی کی صورت میں موجود ہے۔
امریکہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ یوکرین میں روس کے خلاف لڑنے والی فوجوں کو وسیع پیمانے پر ہتھیاروں اور اسلحہ کی سپلائی کا مقصد روس کو کمزور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پیش نظر دو اور مقاصد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ اتحادیوں‘ خصوصاً یورپی ممالک کو یقین دلانا کہ امریکہ یورپ کو لاحق سکیورٹی خدشات کو پوری سنجیدگی سے لیتا ہے‘ اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا‘ اور دوسرے اسے یورپ میں سرد جنگ کے زمانے کی طرح اپنی عسکری قوت قائم رکھنے کا موقع ملے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے اہم ذریعہ نیٹو ہے۔ نیٹو کی مضبوطی دراصل یورپ پر امریکہ کی بالا دستی کے استحکام کا دوسرا نام ہے۔
پہلے صدر پوتن کے تحت اپنی سابقہ پوزیشن پر تیزی سے بحال ہوتے ہوئے روس کے نام نہاد خطرے سے یورپی ملکوں کو ڈرایا اور پھر ان کی مدد کی آڑ میں اپنی فوجوں اور ہتھیاروں کو دوبارہ نیٹو کے اڈوں پر جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرکے امریکہ اپنے منصوبے کی اس کامیابی کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ یہ دونوں ممالک برسہا برس سے غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں‘ لیکن نیٹو میں ان کی شمولیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے امریکہ نے یوکرین میںروس کے فوجی اقدام کے خطرے کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ فن لینڈ اور سویڈن اپنی روایتی نیوٹریلٹی (Neutrality) کو خیرباد کہہ کر امریکہ کے نیٹو اتحادی بننے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ روس کے خلاف سرد جنگ کے نئے دور میں امریکہ کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے نیٹو روس کی دہلیز پر پہنچ جائے گا جو کہ اس کے لیے بہت تشویش ناک بات ہے۔
روس کی طرف سے احتجاج اور جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی اس کی تشویش کو ظاہر کرتی ہے‘ لیکن چونکہ طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں ہے اس لیے روس یوکرین کی طرح کسی مزید مہم جوئی کا متحمل نہیںہو سکتا ‘ مگر عالمی سطح پر امن ‘ استحکام اور ترقی کے لیے یہ ایک بہت بڑے خطرے کی علامت ہے۔