ایک طرف آدھا ملک سیلاب کے پانیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسری طرف آدھا اس بد ترین قدرتی آفت کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے‘ لیکن آزمائش کی اس گھڑی میں قوم متحد ہو کر حالات کا سامنا کرنے کے بجائے سیاسی محاذ آرائی میں مصروف ہے۔ اس سے نہ صرف سیلاب زدگان کیلئے اندرونِ ملک ریلیف کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے امداد کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے کیونکہ عدم استحکام اور سیاسی غیر یقینی کی اس صورتحال میں بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کو اپنے کئی آپریشن ترک کرنا پڑتے ہیں یا ان کی رفتار ہلکی کرنا پڑ جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم موجودہ صورتحال میں مجموعی طور پر مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ حکومت میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں کے علاوہ معاشرے کے تمام سنجیدہ اور محبِ وطن حلقوں کی طرف سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں بلکہ سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کو ریلیف پہنچانے کا ہے‘ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر ان سب اپیلوں کو مسترد کر دیا کہ وہ اپنے جلسوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔بجائے اس کے کہ اپنی پارٹی کی توجہ اور وسائل سیلاب زدگان ‘ جن میں سے ایک بہت بڑی تعداد کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا سے بھی ہے‘ کی طرف مبذول کرتے‘ خان صاحب نے اپنی ''حقیقی آزادی‘‘ کی تحریک کا ٹیمپو تیز کر دیا ہے‘ اور اس میں تازہ ترین اضافہ ان کی طرف سے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال پر تیار رہنے کی ہدایت ہے۔
گجرات‘ بہاولپور‘ سرگودھا‘ فیصل آباد اور پشاور کے جلسوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے حامیوں کو ''کال‘‘ کا انتظار کرنے کا کہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ چاہیں تو چند منٹوں میں اسلام آباد کا گھیراؤ کر سکتے ہیں۔بظاہر ان کا اشارہ اس زمینی حقیقت کی طرف تھا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول علاقہ اسلام آباد تک محدود ہو گیا ہے۔مگر جس بات کو سابق وزیر اعظم بڑی آسانی سے نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا رقبہ بے شک اسلام آباد تک محدود ہے مگر اس کا آئینی اور قانونی اختیار پورے پاکستان پر ہے۔ پنجاب اور کے پی یا دیگر صوبوں کی حکومتیں‘ اپنے اپنے علاقوں تک آئینی اور قانونی عملداری کی مالک ہیں۔ اسی کے اندر رہتے ہوئے وہ ان اختیارات کو استعمال کر سکتی ہیں جو آئینِ پاکستان ان کو تفویض کرتا ہے‘ اس سے باہر نہیں‘ لیکن وفاقی حکومت کا معاملہ صوبائی حکومتوں سے مختلف ہے۔ آئین کی رو سے وفاقی حکومت وفاق پاکستان اور اس میں شامل تمام علاقوں کی نمائندہ ہے اور اس کے دائرۂ اختیار میں وہ تمام امور شامل ہیں جن پر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعلقات بھی آئین کے پابند ہیں۔ حکومتوں کی تبدیلی سے آئینی تعلقات تبدیل نہیں ہوتے۔ اگر صوبوں اور وفاق میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہوںتو سیاسی میدان میں تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں‘ مگر آئین کے تحت جو اختیارات دونوں کو حاصل ہیں وہ اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ ان کے تحت ذمہ داریاں اور فرائض بھی قائم رہتے ہیں اور ان کی خلاف ورزیوں سے جو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘ وہ بھی قائم رہتے ہیں۔ اس لیے سابق وزیر اعظم کا یہ دعویٰ کہ وہ چاہیں تو منٹوں میں وفاقی حکومت کے تحت علاقے کا گھیراؤ کر سکتے ہیں‘ آئین کی کھلی خلاف ورزی کی دعوت ہے‘ اس لیے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ایک جائز حکومت ہے‘ کیونکہ یہ آئینی اور قانونی طریقے سے معرضِ وجود میں آئی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے اسے ایک جائز‘ آئینی اور قانونی حکومت تسلیم کر تے ہیں اور نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی سطح پر فعال ادارے اور محکمے بھی وفاقی حکومت کے نہ صرف تابع بلکہ اس سے تعاون کے پابند بھی ہیں۔
گزشتہ چار‘ پانچ ماہ کے دوران حکومت کی کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ ملکی معاملات صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے ذریعے پروگرام کی بحالی میں کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال میں وفاقی حکومت خصوصاً وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے متاثر افراد کو ریلیف پہنچانے میں جس جانفشانی سے کام کیا‘ ملک کے تمام حصوں کے عوام نے اسے سراہا ہے۔ پاکستان کو درپیش مصیبت کی اس گھڑی میں بین الاقوامی برادری نے وزیر اعظم شہباز شریف کی کال پر سیلاب زدگان کی کھل کر امداد کی ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس وقت غیر معمولی صورتحال سے گزر رہی ہے اور اس غیر معمولی صورتحال میں وفاقی حکومت یقینا غیر معمولی مشکلات کا شکار ہے‘ مگر معاملات کنٹرول سے باہر نہیں بلکہ اندرونی اور بیرونی طور پر حکومت پُر اعتما د طریقے سے اپنے فرائض پورے کر رہی ہے۔ ایسے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اسلام آباد پر چڑھائی کا کیا جواز ہے؟
اکثر مبصرین کی رائے ہے کہ عمران خان صاحب کی طرف سے اسلام آباد کے گھیراؤ کی دھمکی دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے‘ کیونکہ سابق وزیر اعظم کے خلاف مختلف اداروں میں مبینہ آئینی اور قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر مقدمات زیر سماعت ہیں ۔ اس صورتحال میں عمران خان کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹکتی ہے۔ عمران خان خود بھی اس کا متعدد بار ذکر کر چکے ہیں‘ جسے وہ اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے '' ٹیکنیکل ناک آؤٹ‘‘ کی کوشش کا نام دیتے ہیں۔ عمران خان نے ملک کے طول و عرض میں اب تک جتنے جلسوں سے خطاب کیا ہے‘ ان سب میں یہ بیانیہ پورے زور و شور سے پیش کیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن یا عدلیہ میں ان کے خلاف جن کیسز کی سماعت ہو رہی ہے‘ ان کے بارے میں یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ یہ سب ''ٹیکنیکل ناک آؤٹ ‘‘کی تیاری ہے۔ انہیں امید ہے کہ '' انتخابی دھاندلیوں (2014)‘‘ اور ''کرپشن و منی لانڈرنگ‘‘ (2017) کی طرح ان کا یہ بیانیہ بھی کامیاب رہے گا‘ لیکن بظاہر ان کی امید پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ 2014 ء کے دھرنے اور لانگ مارچ کے دوران میں ''امپائر کی انگلی‘‘ نے جو کردار ادا کیا تھا ‘ اس بار حالات وہ نہیں۔
2014ء میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو انتخابی دھاندلی کی پیداوار قرار دینے کے عمران خان کے بیانیے کی تمام تر بنیاد‘ اس وقت کے الیکشن کمیشن کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کا ایک بیان تھا جس میں انہوں نے لاہور کے چار حلقوں سمیت ملک کے دیگر حلقوں میں بھی دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا لیکن جب ان سے ثبوت مانگا گیا تو انہوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ ثبوت تو ان کے پاس کوئی نہیں‘ اس طرح پاناما پیپرز سکینڈل میں نواز شریف کا براہ راست نام نہ ہونے کے باوجود ان کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تفتیش کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جو کئی ماہ کی جستجو کے باوجود نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہ لا سکی۔ اسی طرح وہ Regime Change کا بیانیہ بھی بیچنے میں کامیاب رہے‘ لیکن عمران خان کے تازہ ترین بیانیے کی بنیاد ان کے پہلے تمام بیانیوں سے زیادہ کمزور ہے اس لیے اس وقت عمران خان ''ٹیکنیکل ناک آؤٹ‘‘ کا الزام عائد کر رہے ہیں‘ مگر اداروں کے بارے تعصب یا جانبداری کا تاثر قائم نہیں کر سکتے۔