"DRA" (space) message & send to 7575

مخلوط حکومت: فائدے اور نقصانات

عمران خان جب سے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہوئے ہیں‘ وہ اپنے متعدد بیانات میں اپنی حکومت کی خراب کارکردگی کی ایک بڑی وجہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے اور دوسری پارٹیوں اور گروپوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کوقرار دے چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب اب ایک سے زیادہ مرتبہ اپنے اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں اگر انہیں ایک دفعہ پھر ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور قومی اسمبلی میں دو تہائی نشستوں کے ساتھ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ حکومت بنانے سے انکار کر دیں گے۔
سیاسیات کی تعریف‘ سائنس اور تاریخ‘ ہر حوالے سے سابق وزیراعظم کے یہ بیانات عملی تجربات اور موروثی حقیقتوں سے بہت ہٹ کر ہیں‘ کیونکہ سیاست ہے ہی سمجھوتوں کا نام۔ آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل‘ قدیم یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے حکمران (بادشاہ)کو ایک خاندان کے سربراہ (پاکستان کے موجودہ حالات میں اس استعارے کو ایک ٹیم کے کپتان کی مثال دے کر بھی استعمال کر سکتے ہیں) کی حیثیت دے کر سمجھوتوں سے پاک ایک مثالی ریاست کا تصور پیش کیا تھا‘ لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ انہی کے ایک شاگرد ارسطو نے اپنے استاد کے تصورات سے اختلاف کرتے ہوئے سیاست کا سائنٹفک نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نظریے کے مطابق سیاست معاشرے میں موجود مختلف متضاد اور بعض حالتوں میں متصادم مفادات کے درمیان ایک ایسا توازن پیدا کرنے کا نام ہے جو نہ صرف معاشرے میں استحکام پیدا کر سکے بلکہ ان بظاہر متصادم مفادات کے تحفظ اور فروغ کی بھی ضمانت دے سکے۔ اسی لیے سیاسیات کو بیک وقت ایک سائنس اور ایک آرٹ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سائنس اس لیے ہے کہ اس میں معروضی حقیقتوں ‘مذہبی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ نسلی‘ علاقائی اور معاشی تفاوتوں کو تسلیم کرکے ان کی بنیاد پر سائنٹفک طریقے کے ذریعے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں اور پھر ان نتائج کی روشنی میں ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جو معاشرے کے ارکان میں سے اکثریت کو قابلِ قبول ہوں۔ اسی لیے سیاسیات کو ممکنات کا فن (Art of possibilities) کہا جاتا ہے۔
اب آئیے مخلوط حکومت کے نظریے اور اس کے مفہوم کی طرف۔ جب کسی ملک میں حکومت ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو تو اسے مخلوط حکومت کہا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال عام طور پر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب پارلیمانی انتخابات میں کوئی پارٹی واضح اکثریت کے حصول میں ناکام ہو کر اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی اور اسے حکومت بنانے کے لیے دوسری سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا پڑتی ہے۔2018ء کے انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کو ایسی ہی صورتحال سے دوچار کیا تھا۔ اسے دیگر سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل ہو چکی تھیں مگر اتنی اکثریت نہیں تھی کہ پی ٹی آئی مرکز میں اکیلے حکومت بنا سکے‘ اس لیے اسے دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً ایم کیو ایم‘ پاکستان مسلم لیگ (ق)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) وغیرہ کو ساتھ ملانا پڑا‘ لیکن ضروری نہیں کہ دو تہائی اکثریت کے حصول میں ناکامی ہی مخلوط حکومت کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی نے 2019ء کے انتخابات میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرکے اپنے سیاسی اتحاد این ڈی اے کی رکن کئی سیاسی جماعتوں کو شامل کرکے مخلوط حکومت تشکیل دے رکھی ہے‘ تاہم مخلوط حکومت کے نظریے اور مفہوم کی بنیاد پر جو چند نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیںوہ یہ ہیں کہ جہاں کہیں ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کا نظام ہو گا اور حکومت پارلیمانی ہو گی اور معاشرہ مختلف مذہبی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ نسلی اور تہذیبی خواص کے مالک گروپوں پر مشتمل ہوگا تو مخلوط حکومت کے ناگزیر ہونے کے امکانات موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ ملک میں معاشی ناہمواریوں اور علاقائی تفاوتوں کی موجودگی بھی مخلوط حکومت کو ناگزیر بنا دیتی ہے‘ کیونکہ اس صورت میں نہ صرف علاقائی سیاسی پارٹیاں جنم لیتی ہیں بلکہ پروان بھی چڑھتی ہیں اور پاکستان اور بھارت میں اگر اس وقت کسی مسئلے کو قومی یکجہتی اور اتحاد کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جا سکتا ہے تو وہ علاقائی تفاوتیں ہیں۔ اس لیے عمران خان اگر مکمل طور پر با اختیار ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لیے صرف دو تہائی اکثریت ہی کافی نہیں کیونکہ پاکستان‘ بھارت اور دنیا کے جن دیگر ممالک میں کثیر الجماعتی اور پارلیمانی نظام رائج ہے اور اُن کی تاریخ بتاتی ہے کہ دوتہائی اکثریت کے باوجود مخلوط حکومت وہاں ناگزیر ہو جاتی ہے تو انہیں کثیر الجماعتی نظام کی جگہ یک جماعتی نظام اور پارلیمانی نظامِ حکومت کے بجائے صدارتی نظام حکومت نافذ کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ علاقائیت کی حوصلہ شکنی کے لیے علاقائی سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے تاریخی تجربے کی بنا پر یہ سب کچھ کرنا ممکن ہے؟ سابق وزیراعظم کے قریبی حلقوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں اور اپنی مختلف تقاریر اور بیانات میں 18ویں آئینی ترمیم‘ جس کے تحت صوبوں کو نہ صرف انتظامی بلکہ مالی شعبے میں بھی مکمل خود مختاری دی گئی ہے‘ کی مخالفت بھی کر چکے ہیں۔ دیگر الفاظ میں عمران خان سابق صدر ایوب خان کے صدارتی نظام سے ملتا جلتا حکومتی نظام چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ 1956ء کے پارلیمانی دستور کو منسوخ کرکے 1962ء کے صدارتی نظام کے نفاذ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بیج بویا تھا۔ متحدہ پاکستان میں صدارتی نظام کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ 1968ء‘ 1969ء کی ایوب مخالف عوامی تحریک کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں پہلے نمبر پر پاکستان میں صدارتی کی جگہ پارلیمانی نظام حکومت کا مطالبہ شامل تھا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد قائم ہونے والے نئے ملک بنگلہ دیش میں بھی شیخ مجیب الرحمن نے اپنی بے پناہ مقبولیت کی بنا پر صدارتی نظام نافذ کیا تھا۔ 1975ء میں ان کے قتل کے بعد آنے والی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے اسے جاری رکھا مگر 1991ء میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہونے کے باوجود دونوں سیاسی پارٹیوں یعنی عوامی پارٹی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے پارلیمانی نظام بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بنگلہ دیش کی دیگر تمام سیاسی پارٹیوں جن میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی بھی شامل تھی‘ نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس وقت بنگلہ دیش میں بغیر کسی نفاق کے پارلیمنٹ نظام حکومت رائج ہے۔
ان تجربات کے باوجود اگر عمران خان اور ان کی طرح کسی دوسرے شخص کے دل میں مکمل طور پر بااختیار وزیراعظم بننے کا شوق ہے تو یہ نہ صرف قابلِ فہم بلکہ جائز بھی ہے‘ کیونکہ اتحادیوں (مخلوط حکومت) پر انحصار کئے بغیر نظام حکومت کے فائدے بھی ہیں۔ مثلاً اس سے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل اور سیاسی استحکام کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی پارٹیوں‘ جو بعض اوقات ''بادشاہ گر‘‘ کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں‘ کی بلیک میلنگ سے بچا جا سکتا ہے۔ مخلوط حکومت میں فیصلے چونکہ اتفاق رائے کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اس لیے بڑی پارٹی کو بعض صورتوں میں اپنے اصولوں اور پالیسیوں پر سمجھوتہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم جیسا کہ سابق وزیراعظم عمران خان شکایت کرتے ہیں‘ بے بس نظر آتا ہے۔ لیکن ثقافتی‘ جغرافیائی‘ معاشی اور لسانی لحاظ سے متنوع معاشرے میں دو تہائی اکثریت کے باوجود مخلوط حکومت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے بلکہ ناگزیر صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس کی مثال بھارت میں بی جے پی کی سرکردگی میں مرکز میں قائم مخلوط حکومت ہے‘ حالانکہ حکمران جماعت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں واضح اکثریت حاصل ہے۔ پاکستان کا سیاسی کلچر بھارت سے مختلف نہیں‘ سب سے اہم بات یہ کہ مخلوط حکومت کی صورت میں وفاق کو تقویت ملتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں