1947ء میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستانی قوم مسلسل سیاسی استحکام کی تلاش میں ہے‘ لیکن 75 سال گزر جانے کے بعد بھی منزل مقصود سے کوسوں دور‘ بلکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس فاصلے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلہ کس قدر پیچیدہ ہے اس کا اندازہ پاکستان کی آج کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک اور سابقہ حکمران جماعت کے چیئرمین نے توشہ خانہ کیس میں بقول ان کے‘بے بنیاد اور جھوٹے الزام نشر کرنے پر ایک ٹی وی چینل اور اینکر پرسن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ بقول ان کے انہیں یہاں کی عدالتوں پر بھروسا نہیں۔ اگر ایک بڑی سیاسی پارٹی کو پاکستان کی ریاست کے ایک اہم ادارے پر بھروسا نہیں تو عام آدمی کی سوچ کیا ہو گی؟ اس صورتحال میں عوام کی مایوسی ایک طرف‘ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سوچ سے ریاست کے ادارے کمزور ہو تے ہیں۔ اس کی مثال ملک کے شمال مغربی علاقوں سے موصول ہونے والی ایک تازہ مگر تشویشناک خبر سے دی جا سکتی ہے۔ پاکستانی طالبان کے ایک گروپ کے کمانڈر نے ماہ رواں کے اوائل میں متنبہ کیا تھا کہ جنوبی وزیرستان کے شہر وانا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر ان کا گروپ 15 نومبر سے صوبائی پولیس کی جگہ امن و امان کی ذمہ داریاں سنبھال لے گا۔ طالبان کمانڈر کے اس بیان سے مقامی آبادی میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے گزشتہ ایک ماہ سے امن پسند شہریوں‘ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں‘ تاجروں اور کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کی دھمکیوں اور کارروائیوں کے خلاف احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ لیکن دہشت گرد‘ جن کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے علاقوں میں گھس آنے میں کامیاب ہو چکی ہے‘ پر عوامی رد عمل کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لوگوں کو دھمکانے اور ٹارگٹ کلنگ سے خوفزدہ کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ملا نذیر گروپ سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر عوامی رد عمل کے پیش نظر اپنے الٹی میٹم پر عمل تو نہ کر سکے مگر چند روز پیشتر اپنے ایک درجن سے زیادہ مسلح ساتھیوں کے ہمراہ وانا کے ایک پولیس سٹیشن میں آ دھمکے اور پولیس کے علاوہ وہاں موجود دیگر لوگوں سے ایک مختصر خطاب میں دھمکی دی کہ وزیرستان میں طالبان کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور علاقے کے لوگوں کو جلد یا بدیر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا‘ بصورت دیگر انہیں پچھتانا پڑے گا۔ یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئے۔
ان سوالات میں نمایاں سوال یہ ہے کہ علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان کا کیا کردار ہے؟ گزشتہ ایک برس سے یہ علاقے عدم تحفظ‘ افراتفری اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اغوا برائے تاوان‘ ٹارگٹ کلنگ اور دھمکی آمیز پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صورتحال کا قلع قمع کرنے کیلئے جو ادارے موجود ہیں‘ عوام کا ان پر بھروسا ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی وجہ ملک کا موجودہ سیاسی بحران ہے جس نے گزشتہ سات ماہ سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس بحران سے مرکز میں وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت اور ملک کے دو اہم صوبوں یعنی پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے درمیان تعلقات اس حد تک متاثر ہوئے ہیں کہ موخرالذکر میں سکیورٹی اور امن و امان کا اور اول الذکر میں انتظامیہ کا بریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ کے پی کے‘ خصوصاً سابقہ فاٹا میں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ پولیس اور سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ سکیورٹی فراہم کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کی وجہ سے علاقے کے باشندے اپنی حفاظت آپ کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ پنجاب میں انتظامیہ اور پولیس کے سربراہان چیف سیکرٹری اور آئی جی حکومتی پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ سے رخصت پر ہیں۔ ان کی عدم موجودگی سے نہ صرف صوبے کی انتظامی مشینری متاثر ہو رہی ہے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بگڑ رہی ہے‘ جس کا ثبوت سٹریٹ کرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہے۔ سیاسی بحران کے مضر اثرات میں جہاں ملک میں امن و امان اور عدم تحفظ کی فضا زور پکڑ رہی ہے وہاں ریاست اور سیاسی نظام کا ایک اہم ستون‘ وفاقیت (Federalism) بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے گزشتہ دورِ حکومت کے دوران بھی مرکز اور سندھ حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے اور اس کشیدگی کا ملک کی قومی ترقی کے عمل پر منفی اثر پڑ رہا تھا‘ مگر موجودہ صورتحال میں تو مرکز‘ پنجاب اور کے پی کی صوبائی حکومتوں کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ مرکز اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے بلکہ سابقہ حکمران جماعت کی طرف سے مرکز کی موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کو ایک جائز‘ نمائندہ‘ قانونی اور آئینی حکومت تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک کے بعد دوسرے سیاسی بحران سے بھری پڑی ہے مگر موجودہ صورتحال جیسی الجھن کا قوم اور ملک کو اس سے قبل کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس سے وفاقی پارلیمانی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہونے کے علاوہ معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے کیونکہ امن و امان کی خراب صورتحال اور سیاسی غیر یقینی میں معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ جاتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی‘ تو اس کی ایک بڑی وجہ امان و امان کی خراب صورتحال اور عدم تحفظ ہے۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا عدم تحفظ کا‘ اندرونی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے۔ اب ذرا تصور کریں‘ پاکستان جیسا ملک جو قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور جسے نہ صرف اپنے اخراجات بلکہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے درکار ہیں‘ سیاسی عدم استحکام کیسے اور کتنی مدت کیلئے برداشت کر سکتا ہے؟ اگر آج یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کو باہر سے نہیں بلکہ اندر سے خطرہ ہے تو سچ کہا جا رہا ہے کیونکہ ایک عرصے سے جاری اندرونی خلفشار نے قومی یکجہتی کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں اور ریاستی اداروں کو غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے ہر طرف سے سیاسی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی اور تصادم سے گریز کے حق میں آوازیں بلند کی جا رہی ہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی استحکام کو کیسے بحال کیا جائے؟ موجودہ اپوزیشن اور سابقہ حکمران پارٹی کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کروائے جائیں‘ لیکن بہت سے دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ پولرائزیشن کے اس ماحول میں انتخابات استحکام کے بجائے تصادم کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ عمران خان نے ایک سے زیادہ مرتبہ اعلان کیا ہے کہ انہیں دو تہائی اکثر یت حاصل ہوئی تو وہ انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالیں گے‘لیکن پاکستان میں لسانی‘ ثقافتی‘ معاشی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے مختلف سوچ اور مفادات کے حامل گروپوں کی موجودگی میں کسی پارٹی کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوری انتخابات پاکستان کو درپیش مسائل کا حل فراہم نہیں کریں گے۔ اس سیاسی انتشار کا واحد حل یہ نظر آتا ہے کہ دانشوروں‘ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کی قیادت میں ایک ملک گیر عوامی تحریک سیاسی جماعتوں کو کم سے کم نکات پر مبنی سیاسی پروگرام پر متفق ہونے پر آمادہ کرے۔