جنیوا کانفرنس میں پاکستان نے پچھلے سال کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کیلئے درکار رقم کا تخمینہ 16بلین ڈالرز سے کچھ زیادہ کا پیش کیا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ اس رقم کا آدھا کانفرنس مہیا کر دے تو باقی پاکستان اپنے ذرائع سے اکٹھا کرے گا‘ لیکن کانفرنس کے شریک ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان کی مدد کیلئے جو رقوم مہیا کرنے کا اعلان کیا، وہ تقریباً 10بلین ڈالرز بنتی ہیں‘ یعنی عالمی برادری نے پاکستان کی توقع سے زیادہ امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ ابھی صرف وعدے ہیں اور ایسے مواقع پر اس قسم کے پیکیجز کا ماضی کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ان پر سو فیصد شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی رقم پاکستان کو فوری طور پر دستیاب نہیں ہوگی جبکہ زرِمبادلہ کے تیزی سے گرتے ہوئے ذ خائر کے پیش نظر پاکستان کو فوری طور پر بیرونی کرنسی میں امداد کی ضرورت ہے اور کانفرنس میں تو صرف اعلانات ہی کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے تو خزانے خالی ہو رہے ہیں۔ اس کی فوری طور پر تجوری بھرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست‘ مگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے امداد کی بہم رسانی کا یہی روایتی طریقہ ہے۔ اعلان کردہ امداد کس حد پاکستان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے‘ اس کا اب زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کی طرف سے کتنی جلدی پروجیکٹ ڈیزائن اور فیزیبلٹی رپورٹس تیار ہوتی ہیں۔ پچھلے آٹھ ماہ میں جس طرح محنت اور لگن نے اسے توجہ کا فوکس بنا دیا ہے‘ اس کے پیش نظر اس بات کی قومی امید کی جا سکتی ہے کہ وفاقی حکومت وقت ضائع کیے بغیر سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کے پروجیکٹ ڈیزائن اور فیزیبلٹی رپورٹس امداد کا وعدہ کرنے والے ممالک کے سامنے رکھے گی۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اعلان کردہ امداد کا 90فیصد سے زیادہ حصہ پروجیکٹ قرضوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں حکومت پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کے ساتھ سخت شرائط نہیں لگائی جائیں گی۔ کانفرنس میں شریک حکومتی وفد کی توقع سے کہیں زیادہ امداد کے وعدوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی موجودہ حکومت کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں سے مطمئن ہے۔ 9 اپریل 2022ء سے پہلے صورتحال اس سے مختلف تھی۔ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کرنے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ایک پیکیج پر دستخط تو کر دیے تھے لیکن اس پیکیج میں درج شرائط کی مسلسل خلاف ورزیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ عملی طور پر معطل ہو چکا تھا۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب سیلاب کی شکل میں قدرتی آفت پاکستان کے دو جنوبی صوبوں سندھ اور بلوچستان پر ٹوٹ پڑی تو وفاق اور سندھ کی حکومت نے سیلاب زدگان کیلئے ریلیف ورک کو منظم کرنے اور پانی سے گھرے ہوئے بے گھر مردوں‘ عورتوں اور بچوں تک اس کی بہم رسانی کو یقینی بنانے کیلئے دن رات ایک کر دیے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ لگاتار بارشوں اور سیلاب کی شکل میں اس آفت کے شکار لوگوں کیلئے ملک بھر کے عوام‘ مخیر حضرات‘ رضا کار تنظیموں اور اداروں نے دل کھول کر امداد مہیا کی تھی۔ جنیوا کانفرنس کے شرکا اور خاص طور پر بین الاقوامی برادری سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس پر پاکستانی عوام کے حوصلے اور بہادری کو خراج تحسین پیش کیا اور ڈونرز کی طرف سے پاکستان کی توقع سے بڑھ کر امداد کے جو اعلانات کیے گئے ہیں‘ اس میں پاکستانی قوم کے جذبۂ قربانی اور ایثار اور قدرتی آفت کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے عزم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی حکومت کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کیونکہ اس کی قیادت میں کم وسائل کے باوجود سیلاب زدگان کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ریلیف پہنچایا گیا۔ حکومت مخالف حلقوں کی طرف سے خواہ کیسی بھی منظم مہم چلائی جائے‘ جنیوا کانفرنس میں موجودہ حکومت کی شاندار کامیابی اور پرفارمنس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
افسوس کی بات ہے کہ سیلاب کی صورت میں اس قدرتی آفت نے جو چیلنج کھڑے کیے ہیں انہیں پاکستان سے زیادہ پاکستان سے باہر کی دنیا زیادہ بہتر پہچانتی ہے اور سمجھتی ہے۔ اس کی طرف سے ایک چیلنج تو وہ ہے جس کا پاکستان کو براہِ راست سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تمام دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت پر اس وقت جو بار ہے‘ اس کی ایک بڑی وجہ اس سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں کیونکہ لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تبا ہ ہو چکی ہیں۔ تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں اور کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ 8000 کلومیٹر سڑکیں اور 3100 کلومیٹر ریلوے ٹریک تباہ ہو چکے ہیں۔ سکولوں‘ ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کی عمارتوں کی تباہی یا ان کو نقصان پہنچنے کی شکل میں صحت اور تعلیم کے انفراسٹرکچر کی تباہی کی شکل میں جو مسئلہ قوم کے سامنے کھڑا ہے‘ وہ اس کے علاوہ ہے۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے جرمنی کے وزیر خارجہ نے کانفرنس میں کہا تھا کہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے‘ پاکستان اپنے وسائل سے اس کی تلافی نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے اس سیلاب کو صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے چیلنج بنا کر پیش کیا ہے اور جنیوا کانفرنس کے شرکا کی تقریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا نے اسے تسلیم کر لیا ہے کیونکہ موسموں میں غیرمعمولی تغیرات سے کوئی ملک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان اس کی ایک مثال ہے۔ پاکستانی قوم اور حکومت اس چیلنج کا کس طرح مقابلہ کرتی ہے‘ کم وسائل کے ساتھ وسیع پیمانے پر تباہی کا کس طرح سامنا کرتی ہے اور بین الاقوامی برادری کس طرح اور کس حد تک پاکستان کو بحالی اور تعمیر نو کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے‘ ان اہم سوالوں کے جوابات آئندہ آنے والی تباہیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ جنیوا کانفرنس میں شریک ممالک کی طرف سے پاکستان کیلئے امداد کے فیاضانہ اعلانات کی اصل اہمیت یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد سے پاکستان کو موسمی تغیرات کا عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کی کوششوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔ اسی کانفرنس نے پاکستان اور عالمی برادری کے درمیان موسمی تغیر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں تجربات کے تبادلہ کیلئے ایک طویل المعیاد تعاون کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کانفرنس نے جیسا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے‘ عالمی برادری میں پاکستان کی آئسولیشن کا تاثر ختم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہمراہ پاکستان کی میزبانی اور پھر دنیا کے اہم ممالک کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ اسلامی ترقیاتی بینک کی شرکت اس کا ثبوت ہے۔ پاکستانی ٹیم نے اپنے ملک کا کیس اس مہارت کے ساتھ پیش کیا کہ شرکا متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔ جن ملکوں نے پاکستان کیلئے امداد کا اعلان کیا ہے ان میں وسطی ایشیا کا اسلامی ملک آذربائیجان بھی ہے۔ اس کی طرف سے اعلان کردہ رقوم اگرچہ صرف دو ملین ڈالرز ہے لیکن اس سے پاکستان کی اپیل کا دائرہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستانی کیس کو انسانیت کی ساکھ کی حیثیت سے پیش کیا اور پھر دنیا بھر کے ممالک کی توجہ مبذول کروانے کیلئے اپنے چشم دیدہ حالات کا نقشہ پیش کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں جناب گوتریس کی کوششوں اور پاکستان کیلئے ہمدردی کے جذبات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور ڈونرز کے ساتھ ساتھ سیکرٹری جنرل کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔