سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے عمل میں حرکت پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ پنجاب کے لیے الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا گیا ہے اور معرکے میں حصہ لینے والی دو بڑی پارٹیوں یعنی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اس سلسلے میں امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کی باقائدہ انتخابی مہم کو 8 سے 11 مارچ تک ملتوی کر دیا تھا تاہم گزشتہ تقریباً دو ماہ سے لاہور سے اپنی رہائش گاہ سے وہ پارٹی کے ورکرز اور عوام سے خطاب کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اسے ایک انتخابی مہم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کی سینئر وائس پریذیڈنٹ مریم نواز بھی ملک کے بڑے شہروں میں کنونشنز سے خطاب کر رہی ہیں۔ ان شہروں میں پنجاب کے شہر بھی شامل ہیں‘ جہاں ان دو پارٹیوں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ اسے بھی الیکشن کی تیاریوں کا سلسلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی ملک کے ان دو بڑے صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے اور اس کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اپنے مخصوص طریقے سے موزوں امیدواروں کی تلاش میں مصروف ہیں۔ یہ بھی الیکشن کی ہی تیاریاں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے پنجاب کاجو انتخابی شیڈول جاری کیا ہے‘ اس کے مطابق امیدواروں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 14مارچ اور ووٹ ڈالنے کے لیے 30اپریل کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں درج ہدایات پر عمل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن ان تما م اقدامات‘ جن میں ریٹرننگ افسران اور پریزائیڈنگ افسران کا تقرر اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے علاوہ دوسری تیاریاں بھی شامل ہیں‘ کا اہتمام کرنے میں مصروف ہے۔ انتخابی شیڈول کے اعلان اور ان اقدامات کی روشنی میں کسی سٹیک ہولڈر کو انتخابات کے انعقاد پر شک نہیں ہونا چاہیے مگر پتہ نہیں کیا بات ہے کہ سیاسی افق پر شک و شبہ‘ غیر یقینی اور بد اعتمادی کے گہرے بادل چھٹنے کا نام نہیں لیتے۔
سابق وزیراعظم‘ جن کی پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن سے انتخابی شیڈول کے فوری اعلان کا مطالبہ کر رہی تھی‘ اس وجہ سے غیرمطمئن اور مضطرب ہیں۔ اپنے تازہ بیان میں انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کا انتخابات کروانے کا کوئی ارادہ نہیں اور دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جانا ان شکوک و شبہات میں اضافہ کر تا ہے۔ غیریقینی کی اس فضا کو دور کرنے کے لیے چیف الیکشن کمشنر نے صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر کے ساتھ ایک بار پھر سے مشاورت کے لیے 14مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے۔امید ہے کہ اس ملاقات کے بعد نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پنجاب میں بھی اسمبلی انتخابات کے بارے میں خدشات ختم ہو جائیں گے‘ لیکن 10مارچ بروز جمعہ الیکشن کمیشن کو دی گئی ایک بریفنگ کی تفصیلات نے ایک مختلف صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک کی پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے موجودہ حالات کو انتخابات کے لیے مناسب قرار نہیں دیا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عمران خان‘ آصف زرداری‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن پر قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیش نظرانتخابات کو تین چار ماہ ملتوی کر دیا جانا چاہیے۔ وفاقی وزارتِ خزانہ کی طرف سے انتخابات کے اخراجات کے لیے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ رقم فراہم کرنے سے بھی معذرت کی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر وائس پریزیڈنٹ مریم نواز کے مطالبے 'پہلے احتساب پھر انتخابات‘ نے مسئلے کی پیچیدگی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے حالانکہ ان کی پارٹی نے 30اپریل کے دن ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کر رکھی ہیں۔اس صورتحال کو مزید غیر یقینی اور پیچیدہ بنانے میں پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین عمران خان کے رویے کا بہت عمل دخل ہے۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کے اندر منعقد کیے جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں متعلقہ اداروں کو یہ انتخابات 90 دن کے اندر منعقد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر وہ وفاقی حکومت اور صوبوں میں نگران حکومتوں پر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ ان کا انتخابات کروانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘ حالانکہ پنجاب میں انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جا چکا ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس موقع پر انتخابی عمل میں سب سے اہم سٹیک ہولڈر یعنی سیاسی پارٹیوں کو شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے پر امن ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن دونوں طرف سے منفی پروپیگنڈے‘ الزامات در الزامات اور اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے ماحول کشیدہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ صاف‘ شفاف اور پر امن انتخابات کے انعقاد کے لیے موزوں نہیں۔ اگر سیاسی پارٹیوں نے اپنی روش نہ بدلی تو کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور بظاہر جس مقصد کے لیے وہ سیاسی کنفیوژن میں اضافہ کر رہی ہیں‘ وہ کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ موجودہ سیاسی محاذ آرائی‘ گرما گرمی اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی جنگ سیاسی پارٹیوں کو ان کے اصل اور صحیح مقصد سے دور لے جا رہی ہے حالانکہ اس جھگڑے میں سب سے اہم مسئلہ یعنی انتخابات (صوبائی اور قومی ) پر فریقین کے مؤقف میں کوئی زیادہ فرق نہیں اور جو ہے اسے آئین کے مطابق باہمی مشاورت سے دور کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی طرف سے نگران حکومتوں پر انتخابات سے بھاگنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے مگر نگران حکومتوں اور وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا بیان نظر سے نہیں گزرا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کیا ہو بلکہ امیدواروں سے ٹکٹوں کے لیے درخواستوں کی طلبی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں اعلان کردہ شیڈول کے مطابق صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں‘ البتہ ان کی رائے ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے جن دلائل کا سہارا لیا جا رہا ہے‘ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کچھ عرصہ پیشتر ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں چند مہینے آگے پیچھے کرنے پر راضی ہو جائیں تو اس مسئلے کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے دورانِ سماعت اسی مقصد کے لیے سیاسی پارٹیوں کو باہمی مشاورت کرنے کا موقع فراہم کیا تھا مگر سیاسی پارٹیوں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب اگر مسئلہ دوبارہ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے توچاہیے کہ سیاسی جماعتوں کو مشاورت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر آمادہ کیا جائے۔