خاکسار کا ملک کی 23 کروڑ کے لگ بھگ آبادی میں سے ان خوش نصیب افراد میں شمار ہوتا ہے جنہیں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کی سب سے پرانی اور عالمی سطح پر جانی پہچانی پنجاب یونیورسٹی کے جس شعبہ (پولیٹکل سائنس) میں بطور طالب علم داخلہ لیا تھا‘ اسی میں 30 سے زائد برس تک تدریس و تحقیق کے فرائض سرانجام دینے کے بعد بطور پروفیسر اور چیئرمین شعبہ ریٹائر ہوا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے اور اس کے بعد بھی دیگر ملکی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھانے اور ریسرچ کے جو مواقع حاصل ہوئے‘ اس کی بنیاد بھی اسی شعبہ میں رکھی گئی تھی‘ لیکن ان سب سے قیمتی اور قابلِ فخر اثاثہ وہ لمحات ہیں جو خاکسار کو اس شعبے میں اپنے دیگر رفقائے کار کے ساتھ کام کرنے کے دوران میسر آئے‘ کیونکہ یہ رفقائے کار انتہائی قابل‘ ہردلعزیز استاد اور ہر لحاظ سے رول ماڈل تھے۔ ان میں پروفیسر خالد محمود (مرحوم) بھی شامل تھے جو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی کیلئے جانے جاتے تھے۔
شاید یہ بات ہر کسی کے علم میں نہ ہو کہ یونیورسٹی سروس میں نچلے گریڈ سے ہر اوپر والے گریڈ میں جانے کیلئے آٹومیٹک پروموشن کا نظام رائج نہیں بلکہ ہر اگلے گریڈ میں جانے کیلئے نہ صرف ملک گیر بلکہ بین الاقوامی سطح پر امیدواروں سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں اور ایک پاورفل سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ جس زمانے (1970ء کے اوائل) کی بات کی جا رہی ہے‘ سلیکشن بورڈ میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی بطور رکن شامل ہوتے تھے۔ ایک ایسے ہی سلیکشن بورڈ کے سامنے پروفیسر خالد محمود کو لیکچرار سے آگے بڑھ کر اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامی کیلئے پیش ہونا پڑا‘ جس میں سپریم کورٹ کے ایک اور ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان بیٹھے تھے۔ ان میں سب سے سینئر جج صاحب نے پروفیسر خالد محمود سے کہا کہ وہ پاکستان کی سیاست میں عدلیہ کے کردار پر بحث کریں۔ پروفیسر خالد محمود نے فوراً جواب دیا کہ سب سے پہلے مجھے یقین دہانی چاہئے کہ میرے جواب پر مجھے توہینِ عدالت کا مرتکب قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس پر کمرے میں قہقہہ لگا اور جج صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ نہیں‘ ایسا نہیں ہو گا۔پروفیسر خالد محمود کو پاکستان کی سیاسی تاریخ پر عبور حاصل تھا اور انہوں نے مولوی تمیزالدین کیس (1955ء) سے لے کر دوسو کیس (1958ء ) تک عدلیہ کے کردار کا بھرپور تنقیدی جائزہ پیش کیا جس میں عدلیہ کا کردار متنازع شکل میں ابھرتا ہے۔ اس سلسلے میں مولوی تمیزالدین خان کیس (1955ء) میں پاکستان کی فیڈرل (سپریم) کورٹ کے فیصلے کا خاص طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کیس میں پاکستان کی اس وقت کی اعلیٰ ترین عدالت نے اکتوبر 1954ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی (1947- 1954ء) کی گورنر جنرل کے ہاتھوں تحلیل کو جائز قرار دیا تھا۔ یہ فیصلہ‘ جو فیڈرل کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر کے نام سے مشہور ہے‘ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازع سمجھا جاتا ہے کیونکہ A History of Judiciary in Pakistan کے مصنف اور ملک کے سنیئر وکیل حامد خان کے مطابق جسٹس منیر کے اس فیصلے سے پاکستان کے آئندہ حکمرانوں کو اپنے یکطرفہ اور غیر منصفانہ اقدامات کو جائز ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔جناب حامد خان کی کتاب کے مندرجات کے مطابق جسٹس منیر کی بطور چیف جسٹس تقرری کی طرح ان کا پورا دور بھی پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں سب سے متنازع سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کی عدالتیں ان کے 1954ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل پر کئے گئے فیصلے کے منفی اثرات سے آزاد نہیں ہو سکیں۔ اسی طرح 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز ثابت کر کے انہوں نے ملک میں آئندہ مارشل لاء کی راہ ہموار کر دی۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں ضروری ترامیم کے ساتھ پاکستان نے جس عبوری آئین کے تحت اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا اس میں دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوئی شق موجود نہیں تھی۔ یہ ایک مقتدر (Sovereign) ادارہ تھی اور اس کا کام آئین کی تشکیل تھا‘ جسے مکمل کرنے سے پہلے اسے تحلیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چیف جسٹس محمد منیر نے گورنر جنرل غلام محمد‘ جو اپنے بیک گرائونڈ کے لحاظ سے ایک بیوروکریٹ تھے‘ کے حق میں فیصلہ دے کر دراصل پارلیمنٹ کے خلاف مقتدرہ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کی بنیاد رکھی‘ جس کا عملی مظاہرہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں نظر آتا ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان متنازع فیصلوں نے ملک اور قوم کو جو نقصان پہنچایا ہے اسے کسی طور پورا نہیں کیا جا سکتا‘ مثلاً گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی اس وقت توڑی جب اس نے سات سال کی شب و روز کی محنت کے بعد آئین کی تشکیل کا کام تقریباً مکمل کر لیا تھااور اسے نافذ کرنے کی صرف رسمی کارروائی باقی تھی‘ لیکن گورنر جنرل کے اس اقدام نے نہ صرف اس ساری کاوش پر پانی پھیر دیا بلکہ ملک کو ایک انتہائی خطرناک آئینی اور قانونی بحران میں بھی جھونک دیا۔ اس بحران سے ملک کو نکالنے کیلئے فیڈرل کورٹ کو ہی مداخلت کرنا پڑی اور دوسری دستور ساز اسمبلی کے ذریعے آئین سازی کے کام کو مکمل کرنا پڑا‘ لیکن ایک ایسا شخص جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی لحاظ سے بھی مفلوج تھا‘ کی ایک ضرب سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے تصور کو اتنا نقصان پہنچا جسے پورا کرنے کیلئے ابھی تک جدوجہد جاری ہے۔
یہ محض حسنِ اتفاق نہیں کہ پاکستان پر بیرونی طاقتوں کے غلبے کا دور بھی اسی زمانے سے شروع ہوا۔ ایوب خان نے 1956ء کا جمہوری دستور منسوخ کر کے پاکستان کو سیاسی لحاظ سے اور بھی پیچھے دھکیل دیا۔ بنیادی انسانی حقوق اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر حقِ نیابت‘ جسے ہندوستان کے عوام نے دو سو سال کی جدوجہد کے بعد انگریزوں سے چھینا تھا‘ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے بیک جنبشِ قلم ختم کر دیا۔ چار سال بعد جب اندرونی اور بیرونی دبائو کے تحت مارشل لاء ختم کر کے سویلین سیٹ اَپ بحال کیا گیا تو عوامی نمائندگی کے اداروں کو براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کرنے کی بجائے بالواسطہ انتخابات کا نظام نافذ کر کے حلقۂ نیابت کو محدود کر دیا گیا۔ ایوب خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے نہ صرف ملک میں مارشل لا ء نافذ کیا اور ایوب خان کی طرح سیاسی پارٹیوں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگائی بلکہ پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو ایک ایسے مقدمے میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا جسے عدالتی قتل کہا جاتا ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی نے سر اٹھایا‘ جسے دبانے کیلئے قوم کو اب تک سارے وسائل خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ مدبراور دانش مند حضرات کی متفقہ رائے ہے کہ پاکستان اس نہج پر کبھی نہ پہنچتا اگر عدلیہ نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر اپنے متنازع فیصلوں سے آمروں کے غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کو جائز قرار نہ دیتی۔