روس سے 45ہزار میٹرک ٹن خام تیل سے لدا ہوا جہاز 11جون کو کراچی کی بندرگاہ پہ پہنچ گیا ہے۔ یہ خام تیل‘ جسے پاکستان کی آئل ریفائنریز میں صاف کیا جائے گا‘ پاکستان نے ایک معاہدے کے تحت درآمد کیا‘ جس پر دونوں ملکوں نے گزشتہ اپریل میں باقاعدہ دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت روس پاکستان کو ابتدائی طور پر ایک لاکھ ٹن خام تیل سپلائی کرے گا۔ اگر پاکستان کی آئل ریفائنریز میں اس خام تیل کو صاف کرنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو سرکاری حلقوں کے مطابق روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل کی مقدار ایک لاکھ بیرل روزانہ ہو سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت انرجی سکیورٹی کے مسئلے سے دوچار ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے فارن کرنسی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے‘ چنانچہ روس سے خام تیل کی آمد بلا شبہ ایک اہم واقعہ ہے‘ کیونکہ پاکستان کو اس کی ادائیگی ڈالرز کی شکل میں نہیں کرنا پڑے گی‘ بلکہ جنوری میں اس معاہدے کی طے کی گئی شرائط کے مطابق ''فرینڈلی کرنسی‘‘ میں ادائیگی کی جائے گی۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ کرنسی چین کی کرنسی ہو گی۔ مگر تیل ایک کمرشل ڈیل کے تحت منگوایا جا رہا ہے۔ پھر اسے ایک تاریخ ساز واقعہ اور پاک روس تعلقات میں ایک نئے دورکا نقطۂ آغاز کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی وجہ واضح ہے کیونکہ یہ تیل کی خرید و فروخت کا معاہدہ ہے اور یہ معاہدہ ایسے دو ملکوں کے درمیان طے پایا ہے جن کے تعلقات گزشتہ 75سال سے زیادہ تر کشیدہ رہے ہیں۔
دنیا میں ستر کے قریب ایسی خام اشیا ہیں جنہیں جنگی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کی دریافت سے لے کر مارکیٹنگ تک سیاست کا عمل دخل رہتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کو ہی لے لیجئے۔ جدید دور میں مشرقِ وسطیٰ کی اہمیت تیل کی دریافت کی وجہ سے ہے۔ یہ تیل انیسویں صدی کے آخری دہائی میں دریافت ہوا تھا مگر اس کی کمرشل پیداوار سب سے پہلے 1909ء میں ایران سے شروع ہوئی تھی جو کہ اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے کنٹرول میں تھی اور اس کے سب سے بڑے خریدار امریکہ اور یورپ تھے۔ اس وقت سے لے کر آج تک مغرب نے کسی بیرونی طاقت کو مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے اور اثر و رسوخ پھیلانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ مشرقِ وسطیٰ سے ارزاں نرخوں پر خریدے جانے والے تیل نے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے علاوہ جاپان کی ترقی میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز کی جن وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں تیل بھی شامل ہے‘ کیونکہ جرمنی کو اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت کے لیے تیل کی ضرورت تھی اور تیل کے بڑے بڑے ذخائر یا تو برطانیہ اور فرانس کے کنٹرول میں تھے یا روس کے پاس تھے۔ اسی لیے ہٹلر نے ان ممالک کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔
روس سے خام تیل کی درآمد پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے ایک اہم اقدام ہے کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ کے مقابلے میں روس نے کم نرخوں پر پاکستان کو سپلائی کا وعدہ کیا ہے اور دوسرے اس کی ادائیگی امریکی ڈالرز یا روسی روبلز میں کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ یہ رعایت دی ہے کہ پاکستان اس کی ادائیگی کسی ایسے ملک کی کرنسی میں کر سکتا ہے جس کا دونوں ملکوں کے دوست ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک آسان راستہ ہے کیونکہ ملک میں ڈالرز کی شدید قلت ہے اور پاکستان کی کرنسی کی قدر میں اتنا اتار چڑھائو دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کوئی بھی ملک اس میں لین دین پر راضی نہیں اور چین نہ صرف دونوں ملکوں کا مشترکہ دوست ملک ہے بلکہ گزشتہ سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے سے چند دن پہلے چین اور روس کے درمیان روسی تیل اور گیس کی خریداری کا ایک اہم سمجھوتا ہوا تھا جس کے تحت چین روس سے بہت بڑی مقدار میں تیل اور گیس خرید رہا ہے اور اس کی ادائیگی اپنی کرنسی میں کر رہا ہے۔ روس کے لیے چین کے ساتھ تیل اور گیس کی خرید و فروخت کا یہ معاہدہ اس لیے بہت اہم ہے کہ یوکرین کے ساتھ تنازع کے پیشِ نظر مغربی یورپی ممالک نے روس سے تیل اور گیس کی خرید بند کر دی تھی۔ اس اقدام کا مقصد روس کی معیشت پر دبائو ڈالنا تھا۔ روس کی معیشت کا تیل اور گیس کی برآمد پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس موقع پر چین کی طرف سے روسی گیس اور تیل کی خرید روس کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ثابت ہوئی ہے۔
امریکہ چین کے اس اقدام پر سخت ناراض ہے اور جن وجوہات کی بنا پر امریکہ نے چین کو اس وقت اپنے مفادات کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے‘ ان میں چین کی طرف سے روس کی گیس اور تیل خریدنے کا یہ معاہدہ بھی شامل ہے۔ اب پاکستان بھی روس سے خام تیل خریدنے والا ملک بن گیا ہے اور اس کی ادائیگی بھی چین کی کرنسی میں کی جائے گی‘ اس لیے اس کے سیاسی مضمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مگر یہ سمجھنا حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا کہ روسی تیل خریدنے کا فیصلہ کرکے پاکستان روس اور چین پر مشتمل بلاک میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان روس سے تیل خریدنے والا واحد ملک نہیں ہے‘ بھارت پاکستان سے پہلے سے اور کہیں زیادہ مقدار میں روس سے تیل خرید رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر نہیں ہوئے۔ پاکستان کے اس اقدام کی بھی امریکہ نے مخالفت نہیں کی بلکہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے اس فیصلے پر امریکی ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ نے جو بیان جاری کیا اس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے بین الاقوامی مارکیٹ میں روسی توانائی کی فروخت پر کبھی پابندی عائد نہیں کی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ کے نزدیک جو ملک چاہے روس سے تیل اور گیس خریدے‘ امریکہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں‘ تاہم پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امریکہ پاکستان اور روس کے درمیان تیل اور گیس کے شعبے میں تعاون کا مخالف رہا ہے‘ اس ضمن میں 1960ء کی دہائی کے اولین برسوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جب صدر ایوب خان کی کابینہ کے رکن اور اس وقت وزیر برائے قدرتی اور معدنی وسائل ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش سے پاکستان اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت روسی سائنس دان اور انجینئر پاکستان آئے تھے‘ مگر اس معاہدے کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں تعاون آگے نہ بڑھ سکا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی مخالفت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے علاوہ پاکستان کی مقتدرہ کا ایک حصہ بھی اس شعبے میں پاک روس تعاون کا مخالف تھا۔ اس کے بعد 1960ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے پاکستان اور روس کے درمیان تعاون قائم ہوا تھا اور ایک معاہدے کے تحت روس نے پاکستان کو چند ہیلی کاپٹر اور ٹینک بھی مہیا کیے تھے مگر اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی مخالفت کی وجہ سے یہ تعاون مزید آگے نہ بڑھ سکا تھا۔
اب روس پر بھارت کا وہ اثرورسوخ نہیں جو 1970ء میں تھا اور نہ ہی امریکہ اب واحد سپر پاور ہے جو ہر کسی پہ اور ہر معاملے میں اپنا حکم چلا سکے۔ اس لیے نہ صرف روس بلکہ پاکستان بھی کسی کے اثرورسوخ اور دبائو کے نیچے نہیں ہے بلکہ دونوں آزاد اور خود مختار ممالک کی حیثیت سے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر قسم کی کمرشل ڈیل کا حق رکھتے ہیں۔