"DRA" (space) message & send to 7575

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور پاکستانی معیشت

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اگلے نو ماہ کیلئے تین بلین ڈالر کے قرض کی فراہمی پر سمجھوتہ ہو جانے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے جو پریس کانفرنس کی اس میں انہوں نے اور باتوں کے علاوہ دو ایسی باتیں کی ہیں جن پر میڈیا اور تبصرہ نگاروں کو خصوصی توجہ دینی چاہئے اور ان کی اہمیت کو عوام کی آگاہی کیلئے واضح کرنا چاہیے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر جشن منانے کی بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر ان حالات اور وجوہات کا جائزہ لینا ہو گا جن کی بنا پر ہمیں کبھی اپنے دوست ملکوں اور کبھی عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ اس سے دنیا میں پاکستان کا جو امیج ابھرتا ہے اس سے سبھی آگاہ ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر گزشتہ تقریباً 61 برس سے ملک کی ہر حکومت کو جو خفت اٹھانا پڑتی ہے وہ بھی سب کے علم میں ہے۔ اس کے باوجود قرض لئے بغیر ملک کا پہیہ نہیں چلتا۔ اسی طرح گزشتہ چھ دہائیوں میں 22 دفعہ آئی ایم ایف کے پاس جانے والی ہر حکومت نے عالمی ادارے سے قرض لینے کے موقع پر ہر دفعہ یہ عہد کیا کہ یہ آئی ایم ایف سے آخری قرض ہو گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ ان کی دعا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان کی یہ آخری شمولیت ہو‘ لیکن یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ موجودہ پروگرام‘ جو 2019ء میں پی ٹی آئی کے دور میں شروع کیا گیا تھا‘ آج سے آٹھ ماہ قبل اختتام پذیر ہونا تھامگر اس میں نہ صرف تاخیر ہوئی بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کو لاحق بیماریوں کو مکمل طور پر دور کرنے کیلئے ایک نہیں بلکہ مزید کئی آئی ایم ایف پروگرامز درکار ہوں گے اس لئے آئی ایم ایف کے نام نہاد چنگل سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہر حکومت عوام کی تسلی کیلئے جو اعلان کرتی ہے‘ ان پر پورا اترنا محال ہے۔
جب سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے اسے دو معاشی مسائل کا مستقل سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ ایک‘ مالی خسارہ اور دوسرا تجارتی عدم توازن۔ مالی خسارے کو آسان لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب آپ کے اخراجات آمدنی سے تجاوز کر جائیں تو اسے مالی خسارہ کہتے ہیں اور جب آپ کی برآمدات درآمدات سے کم ہوں تو اسے تجارتی عدم توازن کہتے ہیں۔ اول الذکر یعنی مالی خسارے پر قابو پانے کیلئے دو طریقے ہیں: اخراجات میں کمی‘ اور اگر اخراجات میں کمی مشکل ہو تو آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ بیرونی تجارت میں عدم توازن کا واحد علاج برآمدات میں اضافہ ہے لیکن دونوں کیلئے تیز پیداواری عمل پر مبنی معیشت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے اس طرف ہمارے حکمرانوں کی نظر نہیں گئی کیونکہ ہمیں پہلے سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے اور اس کے بعد افغانستان میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے عوض ڈالر ملتے رہے۔ جب افغانستان سے روسی افواج نکل گئیں تو ''دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ڈالر حاصل کرتے رہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے نام پر امریکہ سے 34 بلین ڈالر وصول کئے۔ پاکستانی حکام اس کی تردید کرتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ یہ رقم بیس بلین ڈالر بنتی ہے۔ چلیں پاکستانی حکام کی بات تسلیم کر لیتے ہیں لیکن قوم کا یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ مشرف دور میں حاصل کردہ اس رقم کو کہاں خرچ کیا گیا؟ کون سا بجلی کا یا پانی کا منصوبہ مکمل کیا گیا یا زراعت یا صنعت کے شعبوں میں پیداوار کو بڑھا کر اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات تیار کر کے برآمدات میں اضافہ کیا گیا؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہمارے پاس دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی نظام اور وسیع اور ہموار زرخیز زمین اور ہر قسم کی فصل کیلئے موزوں موسم اورزمین ہے۔ ہمارے ہاں حساس صنعتوں میں استعمال ہونے والی معدنیات بھی ہیں‘ مگر اس کے باوجود ہم گندم‘ دالیں‘ خوردنی تیل اور معیاری بیج درآمد کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی پنجاب کے ایک تہائی حصے پر مشتمل بھارتی پنجاب کا علاقہ ہے‘ جو ایک ارب سے زیادہ آبادی پر مشتمل ملک کی 38 فیصد گندم اور 29 فیصد چاول کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں زرعی شعبے میں پاکستان کے مقابلے میں فی ایکڑ پیداوار کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے صنعتی شعبے میں پاکستانی مزدوروں کی پیداواری صلاحیت دنیا میں کم ترین شمار کی جاتی ہے کیونکہ ہمارا مزدور نہ تو پڑھا لکھا ہے اور نہ ہی جدید ہنر کا مالک۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی مثال ہے۔ اس کی سب سے اہم زرعی پیداوار پٹ سن ہے جو کسی زمانے میں خام حالت میں برآمد کی جاتی تھی اور برآمدی آمدنی کا ذریعہ تھی‘ اب ویلیو ایڈڈ عمل کے ذریعے مختلف شکلوں میں برآمد کی جاتی ہے اور پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ زرِمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی مگر ریڈی میڈ گارمنٹس برآمد کرنے والے چوٹی کے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
اگرچہ حکومت گزشتہ مالی سال ختم ہونے سے قبل اگلے مالی سال 2023-24ء کے پہلے نو ماہ تک آئی ایم ایف سے تین بلین ڈالر کے حصول کو اپنی بڑی کامیابی اور ایک عمدہ ٹیم ورک کا نتیجہ قرار دے رہی ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ پاکستانی معیشت کو درپیش مسائل کا مستقل اور پائیدار حل نہیں کیونکہ قرضوں پر کوئی ملک زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ موجودہ سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پاکستانی معیشت کے تین پہلوئوں میں ریلیف فراہم کر سکتا ہے۔ اس سے بیرونی ادائیگیوں میں حائل مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آئے گا۔ آئی ایم ایف کی دوا سے پاکستان کی بیمار معیشت کو اگر کوئی افاقہ ہوتا ہے تو مریض (پاکستانی معیشت) کو بستر پر لیٹے رہنے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر خود چلنے کی صلاحیت (خود انحصاری) حاصل کرنی چاہئے۔ ملک میں متعدد حلقوں کی طرف سے آئی ایم ایف پیکیج کے ساتھ نتھی کڑی شرائط کو تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ شدید مہنگائی سے پسنے والی عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گالیکن مریض کی حالت کے پیشِ نظر اسے کڑوی گولیاں کھانا پڑیں گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کا مقصد قرض وصول کرنے والے ملک کی معیشت میں ڈسپلن لانا اور اسے ملکی قوانین اور ضوابط کے ماتحت لانا ہے تاکہ اس میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار اعتماد کرتے ہوئے سرمایہ کاری کریں اور معیشت کا پہیہ چل سکے۔
ایک ضروری بات کو بھی نو ٹ کرنا چاہئے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے والے ممالک کو اپنی طرف سے نقد رقم سے زیادہ ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے جس کے تحت دیگر مالیاتی ادارے اور ملک اس ملک کو دو طرفہ یا ملٹی لیٹرل بنیادوں پر قرض فراہم کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مالی سال 2022-23ء کی آخری ساعتوں کے دوران طے پا نے والے معاہدے کے تحت پاکستان کو اگلے نوماہ کے دوران قسطوں میں نہ صرف تین بلین ڈالر کا قرضہ ملے گا بلکہ اس معاہدے میں شامل فریم ورک کے تحت ورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک اور سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی قرض ملے گا۔ ان رقوم سے پاکستان بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ حل کر سکے گا جس میں ناکامی کی صورت میں ملک کو ناگزیر طور پر ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں