بھارتی میڈیا کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ برکس کی جنوبی افریقہ میں حالیہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر چین نے پاکستان کو بھی برکس میں شامل کرنے کی بڑی کوشش کی تھی مگر بھارت کی سخت مخالفت کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ نتیجتاً جن 19یا 20ممالک کو برکس میں شامل کرنے پر جوہانسبرگ میں غور کیا جا رہا تھا ان میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان نے تو ابھی تک برکس میں شامل ہونے کی کوئی باضابطہ درخواست نہیں دی‘ اس لیے چین کی طرف سے ایسی کسی کوشش کی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا البتہ پاکستان حالات کا جائزہ لے رہا ہے اور جب بھی اس نے مناسب سمجھا اس تنظیم میں شمولیت کی کوشش کرے گا کیونکہ جن اصولوں پر اور جن مقاصد کی خاطر برکس کو قائم کیا گیا ہے‘ پاکستان نے ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے۔
اصولی طور پر پاکستان کو برکس کا رکن ہونا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں اہم فوائد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ اس کی بیرونی تجارت اور برآمدات میں اضافے کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔پاکستان 1970ء سے South-South cooperation کا حامی رہا ہے اور اس پالیسی کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاکستان کی طرف سے پہلی مرتبہ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر معاشی‘ ثقافتی اور سیاسی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی تھی‘ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ویژن کے تحت بھانپ لیا تھا کہ غیر منصفانہ عالمی اقتصادی نظام کے خلاف کامیاب جدوجہد کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو باہمی اتحاد‘ تعاون اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑے گا‘ لیکن ضیاالحق کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات بدل گئیں اور اس کا تمام تر فوکس امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں روسی قبضے کے خلاف مجاہدین کی مدد پر تھا‘ مگر افریقی ممالک ‘ خاص طور پر مشرقی افریقہ کے ممالک جو ہارن آف افریقہ سے جنوبی افریقہ تک بحر ہند کی مغربی دفاعی دیوار بناتے ہیں‘ کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر تجارت اور دیگر شعبوں میں تعلقات کے قیام کا جو سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں شروع ہوا تھا‘ اس کو آگے نہ بڑھایا جا سکا‘ البتہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دور میں ''لُک افریقہ پالیسی انیشی ایٹو‘‘ (Look Africa Policy Initiative) کے تحت وزیراعظم کے مشیر رزاق داؤد کی کوششوں سے پاکستان اور بعض افریقی ممالک جن میں ایتھوپیا بھی شامل تھا‘ کے درمیان تجارت اور کاروباری روابط کے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ۔
آنے والے برسوں میں برکس کے رکن ممالک میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ جوہانسبرگ میں منعقد ہونے والی برکس کی پندرہویں سربراہی کانفرنس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا فوکس افریقہ ہو گا کیونکہ معدنیات اور قدرتی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے اسے دنیا کا ''سٹور ہاؤس آف منرلز اینڈ را مٹیریلز‘‘ کہا جاتا ہے۔ سی پیک کی سکیورٹی کے لحاظ سے بحیرہ احمر‘ ہارن آف افریقہ اور بحر ہند کی مشرقی افریقہ کی ساحلی پٹی کی اہمیت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔پاکستان کو اس لیے برکس میں موجود ہونا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف افریقہ کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات کے فروغ میں مدد ملے گی بلکہ برکس کے فریم ورک کے تحت تجارت کے فروغ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح اپنی جغرافیائی لوکیشن کی بنا پر پاکستان اپنی ہمسائیگی میں واقع برکس کے تین ممالک یعنی ایران‘ چین اور بھارت کے درمیان روابط کو آسان اور وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ ان تینوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔ چونکہ تجارت کا فروغ برکس کے ایجنڈے پر سب سے بڑی آئٹم ہے‘ اس لیے پاکستان کو زیادہ دیر تک برکس سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ جہاں تک بھارت کی طرف سے مخالفت کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 2004ء میں جب پاکستان نے آسیان ریجنل فورم کا رکن بننے کی کوشش کی تھی تو بھارت نے اس دلیل کے ساتھ اس کوشش کی مخالفت کی تھی کہ پاکستان اس فورم پر دو طرفہ تنازعات یعنی مسئلہ کشمیر کو اٹھائے گا جو کہ اس فورم کے مینڈیٹ میں شامل نہیں اور اس طرح فورم کو اپنے اصل ہدف یعنی سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی سے دور لے جانے کا سبب پیدا ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملائیشیا اس مسئلے پر بھارت کی حمایت کر رہا تھا لیکن نائن الیون سے پیدا ہونے والی عالمی صورتحال میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے فورم میں شامل امریکہ اور یورپی یونین نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ چین پہلے ہی حمایت کر رہا تھا۔ اس طرح پاکستان کو فورم کی رکنیت تو مل گئی مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کو یقین دہانی کرانا پڑی کہ وہ اس فورم پر بھارت کے ساتھ اپنے دو طرفہ تنازعات کو نہیں اٹھائے گا۔
اقوام متحدہ ہو یا سارک اورSCO کے اجلاس‘ بھارت اور پاکستان کی موجودگی میں دونوں میں جھڑپ تقریباً ناگزیر ہوتی ہے۔ اس سے وہ رکن ممالک جو ان تنظیموں کو صرف معاشی مقاصد کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘ سخت مایوس ہوتے ہیں‘ تاہم جوہانسبرگ کانفرنس میں پاکستان کو مدعو نہ کرنے سے قوم کو مایوسی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان ایک عرصے سے سائوتھ سائوتھ تعاون کا چیمپئن رہا ہے۔ اس کے حق میں پاکستان کی ہر حکومت نے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ فارن آفس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد نہ صرف برکس میں شمولیت کا خواہاں ہے بلکہ غیر رسمی طور پر اس کے لیے کوشاں بھی ہے۔ گزشتہ سال بیجنگ میں تنظیم کی چودہویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی انٹری کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر بھارت کی مخالفت کی وجہ سے اس میں پیشرفت نہ ہو سکی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جوہانسبرگ‘ جہاں نئے اراکین کے انتخاب کا اعلان کیا جانے والا تھا‘ میں پاکستان کو مدعو نہ کرنے کی بڑی وجہ ملک کے مخدوش معاشی حالات اور سیاسی غیر یقینی ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر علاقائی تجارت خصوصاً پانچ اگست 2019ء سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت پر مکمل پابندی اور افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاک افغان دو طرفہ تجارت میں نمایاں کمی کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کو اپنی سرزمین سے بھارت کے لیے برآمدی اشیا سے لدے ٹرکوں کو گزرنے کی اجازت دے رکھی ہے‘ مگر ان ٹرکوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنا سامان واہگہ سرحد پر اَن لوڈ کریں اور واپسی پر انہیں بھارت سے سامان لانے کی اجازت نہیں۔ اس صورتحال سے افغانستان مطمئن نہیں اور وہ پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی رعایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے راستے بھارت کو اپنی برآمدات افغانستان یا اس سے آگے وسطی ایشیا تک پہنچانے پر پہلے ہی پابندی تھی۔ 2019ء سے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت بھی مکمل طور پر بند ہے‘ اور اس کی بڑی وجہ کشمیر میں بھارت کا یک طرفہ اور غیر قانونی اقدام ہے۔ اس اقدام سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور کشیدگی میں اس اضافے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تعلقات بلکہ پوری خطے میں امن اور سلامتی کے امکانات پر منفی اثر پڑا ہے۔ جب تک پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے نتیجے میں خطے کے امن اور سلامتی کے علاوہ تجارت اور باہمی روابط کے امکانات روشن نہیں ہوتے‘ برکس میں پاکستان کی شمولیت پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔