دنیا کے عظیم انقلابی لیڈر اور سابقہ سوویت یونین کے بانی ولادیمیر لینن نے سامراج کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ ملکوں میں جب زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ اور اجارہ داری میں اضافے کی بنا پر مقامی منڈیوں میں مزید سرمایہ کاری کی گنجائش سکڑ جاتی ہے تو زائد سرمایہ (سرپلس کیپٹل) قومی سرحدوں سے پار نوآبادیوں کا رُخ کرتا ہے جہاں سستی مزدوری اور خام مال کی فراوانی کے علاوہ منافع بخش منڈیاں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔ یوں باہمی تضادات کی بنا پر سرمایہ دارانہ ممالک جس ناگزیر بحران سے گزر رہے ہوتے ہیں وہ دنیا کے باقی حصوں کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے حامل 20ملکوں پر مشتمل تنظیم جی 20کے جنم کو اسی سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے۔
1970ء کی دہائی خصوصاً چوتھی عرب اسرائیل جنگ اور اس کے نتیجے میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ یورپی ممالک اور امریکہ کو تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک کی طرف سے سپلائی پر پابندی سے ان امیر ملکوں کی معیشتوں کو جو جھٹکا لگا تھا وہ ایک زلزلے سے کم نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے نوآزاد ملکوں کی جانب سے اپنی خام اشیا کی مناسب قیمتوں کے مطالبے پر مبنی ''نیو ورلڈ اکنامک آرڈر‘‘ کے نعرے نے دنیا کے سات امیر ترین ممالک (امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ جاپان اور جرمنی) کو اپنی صفوں کو درست کرنے پر مجبور کیا اور یوں جی سیون گروپ کا وجود میں آیا۔ اس گروپ کی تنگ نظری اور خود غرضی پر مبنی معاشی اور تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کو پہلے 1998-99ء اور اس کے بعد 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا جہاں ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک پر اثر پڑا وہیں ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ خاص طور پر 2008ء کے مالیاتی بحران‘ جو پہلے امریکہ میں شروع ہوا اور وہاں سے سفر کرتا ہوا پورے یورپ اور یورپی ممالک کی سابقہ نوآبادیوں تک پھیل گیا‘ نے موجودہ عالمی مالیاتی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس کو مزید جھٹکوں سے بچانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون نے ایشیا‘ افریقہ‘ اور لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایسے ممالک کو ملا کر ایک نئی اور وسیع تنظیم کی تشکیل پر آمادہ کیا جو وسیع منڈیوں‘ خام مال اور معدنیات کی فراوانی اور منافع بخش سرمایہ کاری کی منڈیوں کی وجہ سے ان کی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب ثابت ہو سکتے تھے۔ اس طرح جی20 کا قیام عمل میں آیا‘ جو ابتدا میں ان تمام ممالک کے وزرائے خارجہ پر مشتمل ایک فورم تھا‘ تاہم 2008ء کے مالیاتی بحران کی سنگینی نے اسے سالانہ سربراہی کانفرنس میں بدل دیا۔
اس تنظیم کی اب تک 18سربراہی کانفرنسیں ہو چکی ہیں جن میں سے آخری بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس تھی۔ باقی تنظیموں سے ہٹ کر جی20تنظیم کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممبران یعنی اقوام متحدہ کے پانچ بڑوں (امریکہ‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس) کے علاوہ ایشیا‘ افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور یورپ سے تعلق رکھنے والے ممالک کے علاوہ آسٹریلیا بھی شامل ہے۔ اس لیے اس کے پلیٹ فارم سے اتفاقِ رائے پر مبنی جن فیصلوں کا اعلان کیا جاتا ہے‘ دنیا کی سیاست اور معیشت پر ان کا گہرا اثر پڑتا ہے‘ لیکن کچھ عرصہ سے خصوصاً جب سے عالمی سطح پر امریکہ اور چین کے درمیان نئی سرد جنگ (New cold war) کا آغاز ہوا ہے‘ اور روس اور یوکرین میں جنگ چھڑی ہے‘ جی 20 کے پلیٹ فارم کو دنیا کو درپیش معاشی‘ سماجی‘ موسمی اور فطری تباہ کاریوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے بجائے بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے جیو سٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران جی 20 پلیٹ فارم سے ترقی پذیر ممالک کے دباؤ کے تحت دنیا کو درپیش متعدد اہم چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے متاثرہ قوموں اور ممالک کی مدد بھی کی گئی ہے۔ ان میں کووڈ19 سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ کو امداد فراہم کرنا‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے لیے مختلف منصوبوں کی مدد کرنا‘ خوراک کی قلت پر قابو پانے اور ترقی کے عمل کو تیز کرنے اور پائیدار بنانے میں امداد فراہم کرنا شامل ہے۔ اسی وجہ سے تیسری دنیا کے متعدد ممالک جو اپنے وسائل پر انحصار کرکے بعض مسائل مثلاً صحت‘ تعلیم‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے نمٹنا‘ کو حل نہیں کر سکتے وہ جی 20میں شمولیت اور اس کے ساتھ تعاون میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اس میں جی سیون کے رکن دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔
نئی دہلی میں اس کی اٹھارہویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر افریقی ممالک کی تنظیم جسے پہلے ''افریقی اتحاد کی تنظیم‘‘ کہا جاتا تھا‘ کو جی 20 میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے اس تنظیم کو سائوتھ سائوتھ تعاون کی ایک مثالی تنظیم کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں نارتھ سے تعلق رکھنے والے ممالک امریکہ‘ کینیڈا اور مغربی یورپ‘ اور جاپان کے ساتھ سائوتھ میں شمار ہونے والے ممالک چین‘ بھارت‘ جنوبی افریقہ‘ انڈونیشیا‘ ترکی‘ سعودی عرب اور یو اے ای بھی شامل ہیں۔ لیکن گزشتہ آخری دو سربراہی کانفرنسوں میں دنیا کو درپیش اجتماعی مسائل کے بجائے بعض رکن ممالک کی قومی سلامتی اور سیاسی مفادات سے وابستہ مسائل کو اہمیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
9اور 10ستمبر 2023ء کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی کانفرنس سے پہلے گزشتہ سال انڈونیشیا کے مقام بالی میں جی 20 کی 17ویں سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے بھی شرکت کی تھی‘ اور دونوں رہنمائوں کے درمیان رسمی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ کانفرنس میں شریک ممالک کے علاوہ دنیا بھر کی نظریں ان دو رہنمائوں کی ملاقات اور اس کے نتائج پر مرکوز تھیں کیونکہ سائوتھ چائنہ سی اور تائیوان کے مسائل پر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کے علاوہ یوکرین کے مسئلے پر چین کی طرف سے روس کی مذمت کرنے سے انکار پر امریکہ چین سے ناراض تھا‘ بلکہ فروری 2022ء میں یوکرین میں روسی فوجوں کے داخلے کے موقع پر چین اور روس کے درمیان تیل خریدنے کے معاہدے پر بھی امریکہ سخت خفا تھا۔ جو بائیڈن چاہتے تھے کہ چین نہ صرف روس کی مذمت کرے بلکہ اس سے تیل خریدنا بھی بند کر دے۔ بالی کانفرنس میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ تنظیم میں شامل جی سیون کے رکن اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر شدید اختلافات ہیں اور سعودی عرب جیسے امریکہ کے اتحادی ممالک بھی یوکرین کی جنگ میں نیٹو اور امریکہ کی حکمت عملی سے مطمئن نہیں۔ جی 20میں شامل ترقی پذیر ممالک ان اختلافات کو نہ صرف تنظیم بلکہ دنیا کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
نئی دہلی میں ہونے والی سربراہی کانفرنس اگرچہ ایک متفقہ مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اگلے سال‘ 2024ء میں اپنی پارٹی بی جے پی کے انتخابی پراسپیکٹس کو بہتر بنانے کے لیے اس کانفرنس کو جس طرح استعمال کیا ہے اس سے بعض حلقوں میں خدشہ پایا جاتا ہے کہ اسے با اثر رکن ممالک اپنے قومی مفاد کے لیے ہائی جیک کر لیں گے۔