امید ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس وضاحت کے بعد کہ قومی انتخابات کا انعقاد جنوری 2024 ء سے آگے جانے کا امکان نہیں اور یہ کہ الیکشن کمیشن نے اگلے سال کے پہلے مہینے کے ختم ہونے سے پہلے انتخابات کروانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں‘ پاکستان کی پارٹی پالیٹکس کوئی سنجیدہ اور با معنی رُخ اختیار کر لے گی۔ اب تک تو اس کا فوکس انتخابات کے انعقاد پرتھا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر مختلف افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پھیلایا جا رہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اعلان کے باوجود جنوری 2024ء میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ اس کے نتیجے میں بے یقینی کا تاثر گہرا ہو رہا تھا۔ صدر مملکت عارف علوی کے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو نے بھی اس تاثر کو مضبوط کیا‘ جس پر الیکشن کمیشن کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے بعد سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر انتخابات میں تاخیر کا باعث بننے کے الزامات لگانا چھوڑ دیں اور انتخابات میں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنا اپنا ایجنڈا پیش کریں۔ اس سے بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے نمٹنے کے لیے متبادل لائحہ عمل پیش کریں کیونکہ پرانے طریقوں سے نئے مسائل حل کرنے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں اور ملک دن بدن مشکلات کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔سکیورٹی ادارے کے ایک سربراہ نے کابل میں طالبان کے قبضے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اب پاک افغان سرحدی علاقوں میں دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور امن کا بول بالا ہو گا لیکن اس واقعہ کے دو سال دو ماہ کے عرصہ کے بعد نہ صرف دہشت گردی کا دائرہ اور کارروائیاں وسیع ہو چکی ہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی صورتحال بھی پیدا ہو چکی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سکیورٹی فورسز اپنے طور پر نہایت جانفشانی سے اس چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں مگر بنیادی طور پر ہر تنازع اور ہر تصادم سیاسی مسئلہ ہوتا ہے اور اسے طاقت سے نہیں سیاسی ذرائع ہی سے حل کیا جاسکتاہے‘ لیکن سیاسی قیادت لا تعلقی یا بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے نتیجتاً ہماری مغربی سرحد پر صورتحال دن بدن مخدوش ہوتی جا رہی ہے جو کسی لحاظ سے بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن )کے قائد نواز شریف نے پاکستان میں آمد کے بعد مینار پاکستان لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُر امن تعلقات کو اپنے آئندہ کے ایجنڈے کی ایک اہم آئٹم قرار دیا ہے مگر اس وقت تو ایک واضح اور فوری توجہ کا مستحق مسئلہ درپیش ہے اور وہ ہے بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور اس کے ساتھ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات۔ اس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہے بلکہ سی پیک اور ایس سی او کے سایہ تلے پاکستان نے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ گوادر کے راستے علاقائی روابط (Regional Connectivity) کے جو منصوبے بنا رکھے ہیں وہ بھی خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ان مسائل کا از سر نو‘ ٹھنڈے دل سے جائزہ لے جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشیدہ تعلقات افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ اسے باہر کی دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان پر انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ نہ صرف اُس کی طویل سرحد ہے بلکہ بحر ہند کے ارد گرد اور اس سے آگے کے ملکوں سے تجارت کے لیے بھی سب سے کم فاصلے کا راستہ پاکستان ہی سے گزرتا ہے۔ مگر دہشتگردی اور مشترکہ سرحد کی آئے روز کی بندش سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
اندرونی طور پر ملک کو سب سے سنگین چیلنج معاشی ہے جس کی وجہ سے دوسرے کئی طرح کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے سے معیشت کی بہتری کے اشارے ملتے ہیں مگر ماہرین کی نظر میں یہ صورتحال مستقل طور پر قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے جس قدر برآمدات میں اضافے کی ضرورت ہے وہ حاصل نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے معیشت کے پہیے کو تیزی سے چلانے کی خاطر جس سطح کی سرمایہ کاری خصوصاً براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ بھی نہ اندرونی اور نہ بیرونی ذرائع سے حاصل ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال کے مسلسل جاری رہنے کی بڑی وجہ دہشت گردی سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ کا احساس اور سیاسی غیر یقینی سے جنم لینے والا عدم استحکام ہے‘ اس لیے اس دلیل میں کافی وزن ہے کہ ملک میں بغیر کسی مزید تاخیر کے صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوں تاکہ ایک ایسی حکومت تشکیل پا سکے جس پر عوام کا بھروسا ہو اور جو ملکی معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل ہونا بھی ضروری ہے‘ تبھی جا کر ملک اس گرداب سے نکل سکتا ہے۔ لیکن ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ سیاسی پارٹیاں پوائنٹ سکورنگ کے لیے ایک دوسرے پر الزام بازی کی بجائے عوام کو انگیج کریں۔ ان کو درپیش مسائل پر اپنا تجزیہ پیش کریں اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے لائحہ عمل تجویز کریں۔ لیکن پاکستان کی سیاست پر ملک کے مستقبل کی فکر کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے درمیان محاذ آرائی‘ دشنام طرازی‘ الزامات اور رسہ کشی کی فضا قائم ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے تیروں کا نشانہ مسلم لیگ (ن) ہے حالانکہ دونوں پارٹیوں نے گزشتہ 16 ماہ تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی چھتری تلے قائم مخلوط حکومت کے اراکین کی حیثیت سے اکٹھے کام کیا تھا۔لیکن جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ (ن) پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کی واپسی پر اس تنقید میں اور بھی تیزی آ گئی ہے اور انہیں ''اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا‘‘ ہونے کے خطاب سے نوازا جا رہا ہے۔ (ن) لیگ کو سب سے بڑی حریف پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اول الذکر پر نہ صرف ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ بلکہ موجودہ نگران حکومت کا منظور نظر ہونے کا الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے اور اسے سمجھنے والے طبقوں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کے اس ماحول میں اگر قومی انتخابات ہوئے تو یہ کیسے پُر امن صاف‘ شفاف اور غیر متنازع رہ سکتے ہیں؟