ٹی وی ٹاک شوز میں شریک تجزیہ کاروں کو سن لیں یا کالم دیکھ لیں‘ ہر کوئی ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سیاست دانوں کو ٹھہرا رہا ہے۔ مہنگائی کا سبب سیاسی حکومتوں کی بیڈ گورننس کو قرار دیا جاتا ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال حتیٰ کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی ذمہ داری بھی سیاست دانوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ ان تجزیوں کے مطابق تو دنیا کی کوئی ایسا برائی نہیں جو سیاست دانوں میں موجود نہ ہو۔ ان کے لیے ''کرپٹ‘ بدعنوان‘ لٹیرے‘ چور اور ڈاکو‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
سیاستدان بھی باقی لوگوں کی طرح اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ جو برائیاں معاشرے کی دیگر اکائیوں میں پائی جاتی ہیں‘ سیاستدانوں بھی اُن سے مبرا نہیں ہیں‘ مگر جن لوگوں کی سیاست دانوں کو کوسنے کی عادت ہے‘ ان کی خدمت میں دو سوال پیش ہیں۔ 76برس میں کتنے برس سیاستدانوں نے حکمرانی کی ہے؟ ایوب خان (1958-69ء)‘ یحییٰ خان (1969-71ء)‘ ضیا الحق (1977-88ء) اور پرویز مشرف (1999-2008ء) کے ادوار کا دورانیہ تقریباً 34 برس بنتا ہے۔ یہ مدت پاکستان کی زندگی کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ ان چار حکمرانوں میں سے تین (ایوب خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف) نے باری باری کم از کم دس دس سال لامحدود اختیارات کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کے کسی وزیراعظم کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا نصیب نہ ہوئی بلکہ جو ادوار جمہوری حکومتوں پر محیط ہیں‘ ان میں سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو (1973-77ء) کو چھوڑ کر باقی کوئی بھی وزیراعظم مکمل طور پر بااختیار بھی نہیں تھا۔ خواجہ ناظم الدین (1951-53ء) سے لے کر عمران خان تک اگر کسی وزیراعظم نے اپنے اختیارات کو آزادانہ طور پر بغیر کسی مداخلت کے استعمال کرنے کی کوشش کی تو اسے گورنر جنرل اور صدر کو حاصل غیرمعمولی آئینی اختیارات کے تحت معزول کر دیا گیا یا براہِ راست مداخلت (1958‘ 1977‘ 1999ء) کے ذریعے ان کے عہدوں سے الگ کر دیا گیا۔ جمہوری ادوار میں بھی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے شعبے حکومت کی پہنچ سے دور رہے۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور جنرل (ر) حمید گل کے متعدد بیانات کو اس سلسلے میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق اٹارنی جنرل چوہدری نذیر احمد نے 1960ء کی دہائی میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں طلبہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اکتوبر 1951ء میں اس لیے شہید کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے امریکہ کے دورے کے نتائج سے مایوس ہو کر ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کرنے والے تھے۔
اسی طرح سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک مرتبہ قومی اسمبلی میں یہ کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا پڑا تھا کہ پاکستان میں ایک ''سٹیٹ ود اِن سٹیٹ‘‘ ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ حسین شہید سہروردی (1956-57ء) سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف تک کو احتساب کی چکی میں پسنا پڑا ہے۔ دوسری طرف لیکن جو لوگ آئین کی رو سے قوم کے سب سے بڑے مجرم (آئین شکن) ہیں‘ انہیں سزا دینے کی جسارت کرنے والی عدالت کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے سیاستدان‘ جلا وطنی کاٹنے والے سیاستدان‘ جیل کی کال کوٹھڑی میں بند رہنے والے سیاستدان‘ پھر بھی سیاستدانوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں ملک کے اندر ہر خرابی اور باہر ہر ناکامی اور بدنامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سیاستدان قانون کی خلاف ورزی کریں تو ان کی گرفت نہ ہو‘ غلط فیصلے کریں تو ان کی پوچھ گچھ نہ ہو‘ بدعنوانی‘ رشوت خوری‘ مالی جرائم کے مرتکب ہوں تو ان کا احتساب نہ ہو۔ کوئی شہری‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو‘ وہ آئین اور قانون سے بالاتر نہیں ہوتا۔ اسی اصول کی پابندی معاشرتی امن اور سیاسی استحکام کی ضمانت ہے۔ ہمارے ہاں اگر معاشرتی امن اور سیاسی استحکام کا بحران ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اسی اصول یعنی 'قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سیاستدان یا سیاسی حکومتیں خامیوں اور لغزشوں سے مبرا نہیں ہوتیں‘ لیکن جہاں ہم ان کی ناکامیوں اور غلطیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں‘ وہاں ان کی کامیابیوں اور خدمات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے۔ کون ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع دو علیحدہ حصوں پر مشتمل اور مذہب کے سوا باقی سب شعبوں یعنی زبان‘ رنگ‘ نسل‘ ثقافت اور معاشی حالات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قطعاً مختلف لوگوں سے آباد ملک کو ایک قوم کے قالب میں ڈھالنا تھا۔ اس مقصد کے حصول میں تاخیر ہوئی‘ لیکن نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ 1956ء کے متفقہ آئین کے تحت یہ کرشمہ سرانجام پایا تھا اور اس کا سہرا کسی اور کے نہیں بلکہ سیاستدانوں کے سر ہے‘ حالانکہ 1956ء کا آئین نقائص اور خامیوں سے خالی نہیں تھا۔ ملک کے آئین کی تشکیل کے لیے قائم پہلی قانون ساز اسمبلی کو 1954ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔ جس اسمبلی نے 1956ء کے آئین کو حتمی شکل دی تھی وہ ایک منتخب اسمبلی نہیں تھی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر بلایا جانے والا کنونشن تھا۔ اس کے باوجود 1956ء کے آئین کو پاکستان کی تاریخ میں اس لیے سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے کہ ایک تو اس کا 95فیصد سے زیادہ حصہ پہلی آئین ساز اسمبلی (1947-54ء) مکمل کر چکی تھی‘ دوسرے ملک کے دونوں حصوں میں آبادی کے فرق کے باوجود مساوات (Parity) کے اصول پر قومی اسمبلی میں نمائندگی پر مشرقی پاکستان کی رضامندی سے یہ آئین ایک متفقہ دستاویز کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔1973ء کے آئین کی تشکیل بھی غیرمعمولی حالات میں عمل میں آئی تھی۔ ملک میں پرانے سیاسی مسائل‘ جن میں سب سے بڑا صوبائی خود مختاری تھا‘ نے پھر سر اٹھا لیا تھا اور چھوٹے صوبوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری بلکہ قراردادِ پاکستان (1940ء) کی بنیاد پر نئے آئین کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ 1970ء کے انتخابات اور اس سے قبل پاکستان کی سیاسی فضا تقریباً آج جیسی تقسیم (Polarization) سے مکدر تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے فہم و فراست اور رویے نے یہ مشکل کام بھی آسان کر دیا اور پاکستان کو ایک ایسا آئین دیا جو بلاشبہ ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔
بہت کم لوگوں کا اس طرف دھیان جاتا ہے کہ پاکستان کوجس دیرینہ بلکہ سب مسائل سے زیادہ نازک مسئلے کا سامنا رہا ہے وہ تھا پاکستان کے تین صوبوں یعنی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ۔ یہ مسئلہ بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں پنجاب میں نہری نظام کے قیام پر پیدا ہوا تھا۔ انگریزوں نے یہ معاملہ ایک عارضی فارمولے کے تحت حل کر دیا تھا‘ مگر سندھ اور بلوچستان کی طرف سے اس مسئلے کے ایک مستقل حل کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس کامیابی کا سہرا بھی ایک سیاستدان میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1991ء میں ان تینوں صوبوں کو دریائی پانی کی تقسیم کے ایک ایسے معاہدے پر متفق ہونے پر راضی کیا جو اب تک قائم ہے اور اسے تینوں صوبوں کی حمایت حاصل ہے۔