"DRA" (space) message & send to 7575

سیاسی پارٹیاں اور منشور…(1)

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابقہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کی سولہویں برسی کے موقع پر آئندہ انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کے 10 نکاتی منشور کا اعلان کر کے ملک میں سیاسی جمود توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ جماعت اسلامی کا بھی دعویٰ ہے کہ اس کا منشور بالکل تیار ہے مگر اسے باقاعدہ طور پر ابھی لانچ نہیں کیا گیا‘ تاہم 28 دسمبر کو منصورہ لاہور کے ہیڈ کوارٹر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم کے ہمراہ جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ''ترازو‘‘ کی رونمائی کی اور انکشاف کیا کہ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی کے لیے 222 اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے 520 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ووٹ دیں تاکہ ملک میں حقیقی تبدیلی لائی جا سکے‘ مگر قوم کو منشور کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا‘ البتہ انہوں نے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ووٹرز کو باور کروانے کی کوشش کی کہ ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی ان کے ووٹ کی زیادہ حقدار ہے۔ اسی طرح چیئرمین پیپلز پارٹی نے جن 10 نکات کا اعلان کیا‘ مبصرین نے انہیں محض ''وعدے‘‘ قرار دیا ہے جو ہر سیاستدان یا سیاسی پارٹی انتخابات سے پہلے اپنے ووٹرز سے کرتی ہے۔ ان میں سے کئی وعدے ایسے ہیں جو بلاول بھٹو پہلے ہی اپنی متعدد تقریروں میں کر چکے ہیں۔ دیگر سیاسی پارٹیاں منشور کے معاملے میں اس سے بھی زیادہ غیر سنجیدہ اور سست روی کا شکار ہیں۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو تقریباً تمام کی رائے تھی کہ ووٹرز امیدواروں کی پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ووٹ نہیں دیتے بلکہ اس کے محرکات اور ہیں‘ جن میں سیاسی اور نظریاتی وابستگی بھی شامل ہے۔ تاہم عوام پارٹیوں کے منشور کو کوئی اہمیت نہیں دیتے کیونکہ یہ صرف وعدوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے کرنے کے بعد بھلا دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے بیشتر سیاسی رہنمائوں کا اس معاملے میں مؤقف یہ تھا کہ ان کی پارٹی آٹھ فروری کے انتخابات میں منشور کے ساتھ حصہ لے گی مگر اس میں انہیں کوئی جلدی نہیں ہے کیونکہ انتخابات میں پارٹیوں کے منشور فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بعض انتخابات ایسے ہیں جن میں پارٹیوں کے منشور نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور انہیں یادگار تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہوئی کیونکہ انہیں اس وقت کے سیاسی حالات کا گہرا جائزہ لے کر بڑی سوچ سمجھ اور سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے پہلے 1946ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کی مثال دی جا سکتی ہے۔
1937ء کے انتخابات میں اگرچہ مسلم لیگ کو سندھ اور بنگال کی صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کی مسلم نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی مگر پنجاب میں اس کے صرف دو امیدوار کامیاب ہوئے تھے‘ ایک ملک برکت علی اور دوسرے راجہ غضنفر علی خان۔ راجہ غضنفر علی بعد میں مسلم لیگ چھوڑ کر یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے جو کانگرس کے ساتھ صوبے میں بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی‘ لیکن 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے متحدہ پنجاب کی 80 فیصد سے زائد مسلم سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا‘ جبکہ یونینسٹ پارٹی کانگرس کے بعد تیسرے نمبر پر آئی تھی۔ مسلم لیگ کی اس کامیابی میں دیگر عوامل کو بھی یقیناً دخل حاصل ہوگا مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے اپنے منشور میں پنجاب میں زرعی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ صوبے کی قانون ساز اسمبلی کی مسلم نشستوں پر مسلم لیگ کا مقابلہ چونکہ یونینسٹ پارٹی سے تھا‘ اس لیے بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل اس پارٹی کے خلاف یہ بہت کارگر ثابت ہوا کیونکہ ان جاگیرداروں اور زمینداروں کے مزارعین نے اپنے مالکان کی پارٹی کی بجائے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے جس نے جاگیرداری نظام ختم کر کے زمینیں بے زمین کاشتکاروں اور مزارعین میں تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
دوسری مثال 1954ء میں مشرقی بنگال (بعد میں جسے مشرقی پاکستان قرار دے دیا گیا تھا) کے صوبائی انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں برسر اقتدار مسلم لیگ کے خلاف عوامی لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی قیادت میں تشکیل پانے والے ایک سیاسی اتحاد‘ یونائٹڈ فرنٹ‘ نے 21 نکاتی منشور کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا اور صوبائی اسمبلی کی 309 میں سے 223 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے وزیر اعلیٰ نورالامین کی لیگی حکومت کو عبرتناک شکست دی تھی۔ صوبائی کابینہ کے تمام وزرا ہار گئے اور خود وزیر اعلیٰ نورالامین کو ایک 27 سالہ سٹوڈنٹ لیڈر نے شکست دی ۔ یونائٹڈ فرنٹ نے اپنے منشور میں پٹ سن کی تجارت اور صنعت کو قومی ملکیت میں لینے اور مرکز کو دفاع‘ امور ِخارجہ اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام اختیارات مشرقی بنگال کو دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ سہروردی اور مولانا بھاشانی کی قیادت میں یونائٹڈ فرنٹ نے یہ انتخابات صوبائی خود مختاری کی بنیاد پر جیتے تھے‘ مگر ان انتخابات کے کچھ ہی دن بعد اے کے فضل الحق کی قیادت میں صوبائی حکومت کو گورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا اور فضل الحق کو غداری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
انتخابات میں پارٹی مینی فیسٹوز کے فیصلہ کن کردار کی اس سے اگلی مثال 1970ء کے انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور بڑے اہتمام کے ساتھ پیش کیے تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور شیخ مجیب الرحمن کی سربراہی میں عوامی لیگ کے پیش کردہ منشوروں کو خاص اور نمایاں اہمیت حاصل ہوئی‘ کیونکہ ان میں پاکستان کے سیاسی معاشی اور آئینی نظام اور دفاع اور خارجہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں پیش کردہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مینی فیسٹو ایک جامع اور مفصل دستاویز ہے‘ جس میں سفارشات پیش کرنے سے قبل پاکستان کی اُس وقت کی سیاسی صورتحال‘ معاشی مسائل اور عوام کو درپیش مشکلات کا بین الاقوامی سیاسی حالات اور رجحانات کے تناظر میں جائزہ لیا گیا تھا۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے چار اصولوں پر مبنی مینی فیسٹو کے ساتھ حصہ لیا تھا۔ یہ اصول تھے: اسلام ہمارا دین ہے‘ جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ 'پاکستان کی پسماندگی‘ غربت‘ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق‘ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ میں کیوں پیچھے رہ گیا ہے؟‘ جیسے سوالات کا جائزہ لے کر 1970ء میں پارٹی اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ملک میں رائج سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے ہوتے ہوئے عوام کو غربت‘ جہالت اور پسماندگی کے چکر سے نہیں نکالا جا سکتا۔ اس لیے 1970ء کے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کے منشور میں بیشتر بنیادی صنعتوں (12) کو قومی ملکیت میں لینے اور زرعی اصلاحات نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس دلیل کے ساتھ کہ آزادانہ خارجہ پالیسی کے بغیر ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا‘ دفاعی معاہدوں‘ سیٹو اور سینٹو‘ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں