الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت ایک سیاسی اتحاد (گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس) اور166 رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہیں مگر تمام سیاسی پارٹیاں اس معرکے میں سرگرم نہیں اور جو ہیں ان میں بھی بعض صرف علاقائی سطح پر سرگرم ہیں۔ قومی سطح پر مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان بھی قومی پارٹیوں میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ ان کے حامی ملک کے ہر حصے میں موجود ہیں اور ان کے نامزد کردہ امیدوار اُن کے گڑھ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ عوامی فوکس لیکن تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پر ہی ہے۔ ان سبھی نے میں اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔
اگرچہ انتخابی منشور کی حیثیت محض ایک روایتی عمل کی ہو کر رہ گئی ہے اور ووٹنگ میں اس کا فیصلہ کن کردار نہیں ہوتا اس کے باوجود عوام انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی پارٹی سے منشور کی توقع رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی خواہ وہ قومی ہو یا علاقائی‘ بڑے اہتمام کیساتھ تفصیلی اور جامع منشور پیش کرتی ہے‘ جن میں ہر سیاسی جماعت اپنے نقطۂ نظر سے ملک کو درپیش مسائل اور بین الاقوامی سیاسی منظرنامے کا تجزیہ‘ انتخابات میں حصہ لینے کے مقاصد اور اقتدار میں آنے کی صورت میں مسائل کے حل کیلئے مجوزہ اقدامات کا خاکہ پیش کرتی ہیں۔ چونکہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطابق اصل سیاسی معرکہ ان کی جماعت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے‘ اسلئے ان دو سیاسی جماعتوں کے منشور کے تجزیے پر مشتمل کالم پیش کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے64صفحات اور13ابواب پر مشتمل ایک تفصیلی منشور پیش کیا ہے۔ 10نکات پر مشتمل ایک دستاویز ''عوامی معاشی معاہدہ‘‘ اسکے علاوہ ہے مگر یہ نکات تفصیلی منشور میں بھی موجود ہیں۔ منشور کے ہر باب میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں پیپلز پارٹی نے اپنا نقطۂ نظر اور سفارشات پیش کی ہیں۔ ان میں معیشت‘ تعلیم‘ صحت‘ آبادی میں اضافہ‘ نوجوانوں کے مسائل‘ موسمیاتی تغیر‘ بچوں اور عورتوں کی فلاح و بہبود‘ اقلیتوں کے حقوق ‘آئینی اصلاحات اور خارجہ پالیسی شامل ہیں‘ مگر فوکس معیشت اور عوام خصوصاً نچلے اور غریب طبقے کو افراطِ زر اور مہنگائی سے نجات دلانے پر ہے۔ معیشت کے بارے میں پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ اسے معاشی استحکام‘ افراطِ زر میں کمی‘ قرضوں کا بوجھ کم کرنے‘ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے‘ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے طبقات کو تحفظ فراہم کرنے اور مالی عدم توازن یعنی آمدنی اور اخراجات میں فرق کو کم کرنے سے مضبوط بنایا جائے گا۔ مالی عدم توازن دور کرنے کیلئے قومی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا جس کیلئے غیر ضروری سبسڈیز کو ختم کیا جائے گا۔ ٹیکس کے شعبے میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گی اور اگلے پانچ برسوں میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب کو 15فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ اسکے علاوہ بیرونی قرضوں کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے منشور میں عوام سے جو وعدے کیے ہیں‘ ان میں سے ایک تنخواہوں میں دگنا اضافہ کرنے کا ہے اور اس کیلئے جن ذرائع اور میکانزم پر انحصار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں معیشت کی پیداواری صلاحیت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کر کے نئی ملازمتیں پیدا کرنا شامل ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ عوام کو یہ سہولیات مہیا کرنے کیلئے ایک مستحکم اور مضبوط معیشت ضروری ہے لیکن ایک مستحکم معیشت کیلئے پرائیویٹ پبلک انویسٹمنٹ کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری بھی ضروری ہوتی ہے مگر اس کیلئے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور سرحدوں پر امن کی موجودگی ضروری ہے۔ پاکستان کی اندرونی سیاست اور خارجہ تعلقات جس صورتحال سے دوچار ہیں‘ اس کے پیش نظر آنے والی حکومت کیلئے بنیادی اور جرأت مندانہ اقدامات ضروری ہیں کیا پیپلز پارٹی ان اقدامات کیلئے تیار ہے؟
منشور میں خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایہ ملکوں کیساتھ تعلقات اور علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے ان سے صرف خواہشات کا اظہار ہوتا ہے‘ کوئی ٹھوس اور فوری نوعیت کے اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔ منشور کے باقی حصوں میں جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پیپلز پارٹی کی روایتی لبرل ڈیموکریٹک سوچ کہیں کہیں نظر آتی ہے مثلاً عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود‘ تحفظ اور اِمپاورمنٹ کیلئے تجویز کردہ اقدامات۔ اقلیتوں کے حقوق‘ قومی یکجہتی‘ محبت اور قوتِ برداشت کو فروغ دینے کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں کیلئے مخصوص سیٹوں کی تعداد 17 سے33فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسمبلیوں کی پانچ فیصد کے بجائے 15فیصد جنرل سیٹوں کو عورتوں کیلئے مختص کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں جی ڈی پی کا پانچ فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ ابھی یہ تناسب صرف 1.5 فیصد ہے۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں درج تین سفارشات ایسی ہیں جو اسے دیگر پارٹیوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہیں۔ ایک تو علاقائی تجارت کو جیو سٹریٹجک ایشوز سے الگ رکھ کر فروغ دینے کا عہد کیا گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چین کے سوا باقی تمام ہمسایہ ممالک کیساتھ پاکستان کی تجارت گنجائش سے بہت کم ہے۔ ان میں سے دو یعنی بھارت اور افغانستان کیساتھ تجارت کے حجم کے گنجائش سے کم رہنے کی بڑی وجہ جیو سٹریٹجک ہے۔2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دو طرفہ تنازعات کو حل کرنے کیلئے کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت امن مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان ذرائع آمدورفت میں بہتری کے علاوہ دو طرفہ تجارت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا تھا مگر پانچ اگست2019ء کو کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام پر پاکستان نے بھارت کیساتھ ہر قسم کے روابط منقطع کرنے کے علاوہ دو طرفہ تجارت پر بھی پابندی لگا دی اور یہ ابھی تک برقرار ہے۔ افغانستان کیساتھ پاکستان کی سالانہ دو طرفہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالر کے قریب تھا مگر دہشتگردی کی وجہ سے یہ تجارت اب صرف چند ملین ڈالر تک محدود ہو چکی ہے۔ ایران کیساتھ تجارت ایران پر امریکہ کی طرف سے عائد شدہ پابندیوں کی وجہ سے محدود ہے۔ تیسرے پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ نئے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے فارمولے پر نظر ثانی کی جائے گی اور آبادی کی بنیاد پر تبدیلی کا جائزہ لیا جائے گا کیونکہ آبادی کو اس قدر اہمیت دینے سے دو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں: ایک‘ زیادہ آبادی والے صوبے کو زیادہ فنڈز ملیں گے جبکہ زیادہ رقبے مگر کم آبادی والے صوبے مناسب حصے سے محروم رہ جائیں گے۔ دوسرے‘ اس سے ہر صوبے میں آبادی کو بڑھانے کا رجحان تقویت پکڑے گا کیونکہ زیادہ آبادی سے زیادہ فنڈز ملیں گے۔ اس سے نہ صرف آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانے کی کوشش متاثر ہوگی بلکہ صوبوں کے درمیان عدم اعتماد اور کشیدگی کی فضا بھی پیدا ہوگی۔
اپنے انتخابی منشور میں چند ایک مندرجات کے علاوہ پیپلز پارٹی نے بھی پاپولسٹ پولیٹکس اختیار کی ہے اور قوم سے ایسے وعدے کیے ہیں جنہیں موجودہ دستیاب ذرائع اور معاشی صورتحال کے پیش نظر پورا نہیں کیا جا سکتا۔بہر حال پیپلز پارٹی نے کافی محنت اور توجہ کیساتھ ملک اور قوم کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے مگر انہیں حل کرنے کیلئے جو وسائل اور طریقہ کار درکار ہے‘ اس کا ذکر کم ملتا ہے۔