29 جنوری کو پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور کا اعلان کیا۔اس دستاویز میں پی ٹی آئی نے قومی ترقی اور ریاستی ڈھانچے پر ان تمام تصورات کو پیش کیا جن کا اظہار پارٹی کے بانی گزشتہ ایک دہائی سے کرتے آ رہے ہیں۔ ان میں معاشی استحکام اور سماجی شعبے میں غریب لوگوں کے فنڈز میں اضافہ کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے ؛ تاہم اس منشور کا سب سے نمایاں پہلو آئینی اور قانونی اصلاحات ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں قومی اسمبلی کی مدت پانچ سے چار سال اور سینیٹ کی مدت چھ سے پانچ سال کرنے کی تجویز پیش کی ہے جبکہ وزیراعظم کو بالواسطہ (قومی اسمبلی کے ارکان) کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کرنے کے لیے آئینی ترمیم کا عندیہ بھی اس منشور میں دیا گیا ہے۔
پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ 1973ء کے آئین کی بنیاد اسی حکومتی نظام پر رکھی گئی اور یہ فیصلہ 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کے منتخب ارکانِ قومی اسمبلی کی متفقہ رائے سے کیا گیا تھا۔ اس لیے 1973ء کے آئین کو متفقہ آئین کہا جاتا ہے ‘مگر گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران متعدد حلقوں کی طرف سے اس کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کی سفارش کی گئی۔ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں بالترتیب آٹھویں اور 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 1973ء کے آئین کو عملی طور پر صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا گیا‘ مگر پیپلز پارٹی کے سابقہ دور (2008-13ء) میں 18ویں آئینی ترمیم (2010ء) کے ذریعے 1973ء کے آئین کو اس کی اصلی حالت میں بحال کر کے پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا ۔ پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے وزیراعظم کو براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب کرنا ایک دوسرے طریقے سے صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے کیونکہ جب وزیراعظم عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہو گا تو وہ اور اس کی کابینہ پارلیمنٹ کے بجائے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے ۔پی ٹی آئی کی طرف سے یہ تجویز نہ تو غیر متوقع ہے اور نہ ہی باعثِ حیرت کیونکہ سینئر سیاستدان اور پی ٹی آئی کے سابق صدر جاوید ہاشمی کے مطابق پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام کے حامی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش یا خواہش کی نمو دو قسم کے سیاسی موسم میں نظر آتی ہے: ایک مارشل لاء حکومتوں کے ادوار میں اور دوسرا‘ پاپولسٹ سویلین لیڈرز کے ادوار میں۔ ایوب خان کا صدارتی (1962ء کا) آئین اور آمرانہ ادوار میں آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم اس کی مثالیں ہیں۔ دوسرا موقع یعنی پاپولر پالیٹکس کی ذوالفقار علی بھٹو کی صورت میں ایک مثال موجود ہے جبکہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے علاوہ بھارت میں نریندر مودی کی شکل میں بھی اس حوالے سے ایک مثال موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنہیں بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل تھی‘ دل سے صدارتی نظام کے حامی تھے۔ اسی لیے انہوں نے 1956ء کے آئین کی بحالی کے مطالبے پر مبنی ایوب مخالف تحریک کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ 1969ء میں جب ایوب خان کے خلاف ملک کے دونوں (مشرقی اور مغربی) حصوں میں عوامی تحریک زوروں پر تھی اور پارلیمانی نظام اور براہِ راست طریقۂ انتخاب کا مطالبہ کیا جا رہا تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے متحدہ اپوزیشن کی تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے ایوب خان کے اعلان کردہ صدارتی نظام میں حصہ لینے کا اعلان کیا؛ اگرچہ ان انتخابات کے انعقاد کی نوبت نہ آ سکی اور مارچ 1969ء میں ایوب خان کو مستعفی ہو کر اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کرنا پڑا جنہوں نے 1962ء کا آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔
جب 1973ء کے آئین کی تیاری کا مرحلہ آیا تو اپوزیشن حلقوں کے مطابق بھٹو صاحب صدارتی نظام کے حق میں تھے لیکن باقی تمام سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے سبب انہیں پارلیمانی آئین پر راضی ہونا پڑا۔ بھٹو صاحب قومی یکجہتی اور امن کی خاطر ایک متفقہ آئین چاہتے تھے؛ البتہ پارلیمانی نظام میں بھی بطور وزیراعظم انہوں نے مردِ آہن کے نظریے کے تحت حکومت کی کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی پارٹی کے سب ارکان اسمبلی 'بھٹو کے نام پر‘ ووٹ حاصل کر کے منتخب ہوئے تھے۔ یہی صورتحال بھارت میں وزیراعظم مودی کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ مودی دو بار (2014ء اور 2019ء کے) بھارت کے پارلیمانی انتخابات جیت چکے ہیں۔ 2019ء میں ان کی پارٹی بی جے پی اور اتحادیوں نے بھارت کے ایوانِ زیریں (لوک سبھا) کی 543 میں سے 300 سے زائد سیٹیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی۔ مبصرین کے مطابق رواں سال اپریل‘ مئی میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر نریندر مودی ہیٹرک کرنے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کی کامیابی کے پیچھے نریندر مودی کا ہاتھ ہے‘ خودمودی اس کا دعویٰ کرتے ہیں اور اب تک انہوں نے تمام انتخابات میں وزیراعظم کے عہدے کیلئے صدارتی امیدوار کی طرز پر حصہ لیا۔ بھارت کے سیاسی حلقوں میں اب یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ ملک کے پارلیمانی انتخابات دو بڑی پارٹیوں‘ بی جے پی اور کانگرس کے درمیان صدارتی مقابلے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی نظر میں پارلیمنٹ کی کیا وقعت و اہمیت رہی‘ اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں رکن منتخب ہونے کے باوجود وہ پارلیمنٹ کو 'چوروں‘ ڈاکوئوں اور ٹھگوں‘ کا ٹولہ قرار دے کر 'ہزار بار لعنت‘ بھیج چکے ہیں۔ اپریل 2022ء میں اپوزیشن کی کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہونے کے ساتھ ہی قومی اسمبلی سے ان کا اپنے پارٹی اراکین کے ساتھ مستعفی ہونے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ عوام کے ساتھ براہِ راست رابطے کے ذریعے وہ پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنا سکتے ہیں۔ ''لوگ کسی امیدوار کو نہیں بانی پی ٹی آئی کو ووٹ دیتے ہیں‘ خواہ وہ کسی کھمبے کو کھڑا کر دیں‘‘ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں بانی چیئرمین کا ہاتھ ہے۔پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا اصرار ہے کہ ان کی پارٹی ملک کی سب سے مقبول پارٹی ہے۔ نرگسیت کی اس نہج کے بعد براہِ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے کی خواہش قابلِ فہم اور توقع کی عین مطابق ہے‘ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اس تجویز پر عمل صدارتی نظام کی طرف پہلا قدم ہو گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش میں صدارتی نظام کے تلخ تجربے کے بعد پاکستان کو ایک دفعہ پھر اس آزمائش سے گزارنا خطرے سے خالی نہیں‘ کیونکہ سیاسی‘ لسانی‘ طبقاتی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرتقسیم اس قوم کے پاس اب چند ہی ایسے ایریاز رہ گئے ہیں جن پر اجتماعی اتفاق ہے‘ وفاقی پارلیمانی نظامِ حکومت ان میں سے ایک ہے۔
بار بار کے مارشل لاء نے قومی اتفاقِ رائے کو پہلے ہی کمزور کر دیا ہے‘ اب وزیراعظم کے براہِ راست انتخاب کے ذریعے پارلیمنٹ کو بے اختیار کرنے سے‘ اس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء میں پیش آیا مگر اس کی بنیاد 1958ء میں ایک ایسے آئین کو منسوخ کر کے رکھ دی گئی تھی جس کے تحت ملک کے دونوں حصوں سے سیاسی پارٹیوں نے وفاقی پارلیمانی نظام اپنانے کا متفقہ فیصلہ کیا تھا۔ ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر کے نہ صرف پارلیمنٹ کو ختم کیا بلکہ بقول سابق چیف جسٹس محمد منیر‘ 1962ء کا آئین نافذ کر کے پاکستان کو وفاقی کے بجائے عملاً ایک وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا ۔ مشرقی پاکستان کے عوام‘ جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کیلئے جدوجہد شروع کر دی تھی‘ نے اس سے مایوس ہو کر علیحدگی کا راستہ اختیار کرنے پر سوچنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں ظاہر ہوا۔