گزشتہ برس اکتوبر میں جب اسرائیل نے غزہ پر اپنے وحشیانہ حملوں کا آغاز کیا تھا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اس جنگ کے تین مقاصد ہیں: اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی‘ حماس کا خاتمہ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ کے علاقے کو اسرائیل پر دوبارہ حملے کیلئے استعمال نہ کیا جا سکے۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے اسرائیل نے بری‘ بحری اور فضائی افواج سے غزہ میں فلسطینی شہری آبادی اور تنصیبات کو خوفناک اور تباہ کن بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنایا مگر سات اپریل2024ء کو اس بھیانک جنگ کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی اسرائیل ان مقاصد کے حصول سے کوسوں دور ہے۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک حماس کی قید میں ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران میں 33ہزار سے زائدفلسطینی شہید اور تقریباً76ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ 20لاکھ سے زیادہ آبادی والے غزہ کو دو کروڑ60لاکھ ٹن ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے باوجود حماس نہ صرف قائم ہے اور بدستور غزہ میں اسرائیلی افواج کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے عوام میں پہلے سے زیادہ مقبول ہے۔ چھ ماہ کے لگاتار حملوں کے باوجود غزہ کو ابھی تک اسرائیل کیلئے محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک آرٹیکل کے مطابق شمالی غزہ کے بعض علاقے‘ جنہیں اسرائیل محفوظ قرار دے چکا تھا‘ اسرائیل پر حملوں کا دوبارہ مرکز بن گئے ہیں اور ان حملوں کے جواب میں اسرائیل کو شمالی غزہ‘ جہاں سے90 فیصد شہری آبادی اسرائیلی حملوں سے بچنے کیلئے جنوب کی طرف نقل مکانی کر چکی ہے‘ میں دوبارہ فوج اور ٹینک بھیجنا پڑے۔ اسرائیل کو اپنی اس ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ اس کی نمایاں مثال جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے ارد گرد مورچہ بند اسرائیلی افواج کو پیچھے ہٹانے کا فیصلہ ہے۔ جنوری میں اس شہر اور جنوبی غزہ کے دوسرے علاقوں میں اسرائیل نے ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے مسلح ہزاروں فوجیوں کو جمع کیا تھا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ خان یونس میں نہ صرف حماس کی کئی بٹالینز موجود ہیں بلکہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی وہیں رکھا گیا ہے‘ مگر تین ماہ کی مسلسل گولہ باری اور زمینی حملوں کے باوجود اسرائیل کو ایک بھی یرغمالی ہاتھ نہ آیا بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی افواج کو حماس کے ہاتھوں جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اسرائیل چھ ماہ تک نہتے فلسطینی شہریوں کے خلاف اپنی پوری فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود نہ تو یرغمالی رہا کرا سکا اور نہ ہی حماس کو ختم کر سکا‘ البتہ غزہ کی چھوٹی سی ساحلی پٹی میں تباہی اور بربادی مچا چکا ہے۔ غزہ کے مختلف حصوں میں رہائشی عمارتوں اور بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے کیمپوں پر بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ ان حملوں میں اقوامِ متحدہ کے اداروں سے تعلق رکھنے والے حکام‘ بین الاقوامی این جی اوز کے مراکز‘ ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رپورٹس کے مطابق غزہ میں اب تک اسرائیلی حملوں سے غزہ کی23 لاکھ آبادی میں سے 19 لاکھ بے گھر ہو کر جنوب میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکی ہے کیونکہ62 فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ان میں دو لاکھ90ہزار 870ہائوسنگ یونٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ غزہ پٹی میں اب تک140 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کیلئے امداد فراہم کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے مطابق غزہ میں اس کے دفاتر پر اسرائیل اب تک350حملے کر چکا ہے جن میں اس کے 176اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ مارچ کے آخر میں ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم ورلڈ سینٹرل کچن کے ایک قافلے پر اسرائیلی طیاروں نے واضح نشانیوں کے باوجود تین دفعہ حملہ کرکے سات ایڈ ورکرز کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے پر دنیا میں اسرائیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور غزہ میں فلسطینی نسل کشی رکوانے کیلئے تحریک اور احتجاجی جلسوں میں اور بھی تیزی دیکھنے میں آئی‘ لیکن غزہ میں فلسطینی آبادی پر اسرائیلی حملے جاری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں اور بھوک‘ پیاس اور زخمیوں کے علاج کی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے اوسطاً روزانہ180فلسطینی شہید ہو رہے ہیں جن میں غالب تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور نہ اسرائیل حماس کو فلسطینیوں سے الگ کرکے ختم کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ آخر وہ کون سی وجہ ہے جس کی بنا پر فلسطینی ابھی تک چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور اسرائیلی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں؟ یہ معلوم کرنا مشکل نہیں۔
غزہ دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور اسرائیل کی کل آبادی میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی تعداد تقریباً برابر ہے مگر ان علاقوں پر قابض اسرائیلی حکومت نے صرف یہودیوں کو سیاسی‘ قانونی‘ سماجی اور معاشی حقوق دے رکھے ہیں۔ تقریباً 50لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نہ صرف شہری تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے ساتھ تعلیم‘ روزگار‘ آمد و رفت کی آزادی اور دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔1948ء میں جب اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک حصے میں یہودی ریاست اسرائیل قائم کی گئی تو اس ریاست میں یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن یہودیوں نے دہشت گردی اور فلسطینی بستیوں پر حملہ کر کے فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ غزہ اور ہمسایہ عرب ممالک یعنی مصر‘ اردن‘ لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ فلسطینیوں کو بحیثیت ایک قوم ختم کرنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ جون1967ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان تیسری جنگ کے دوران اسرائیل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ بیت المقدس کے مشرقی حصے‘ شام کی سطح مرتفع گولان اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھا مگر اس دفعہ ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں نے اپنے گھر بار نہ چھوڑے۔
اسرائیل نے گزشتہ 57برس سے ان فلسطینی باشندوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے ایک سابق وزیراعظم اسحاق رابن کے دور میں جب دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک علیحدہ اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم کرنے پر اسرائیل اور یاسر عرفات کی تنظیم الفتح کے درمیان معاہدہ طے پایا تو امید بندھی تھی کہ فلسطینیوں کو بھی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا موقع مل جائے گا لیکن اس ریاست کو پوری طرح آزاد اور بااختیار بنانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت تھی‘ ان کا فیصلہ کرنے کیلئے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات نہ ہو سکے کیونکہ اسحاق رابن کو ایک انتہا پسند یہودی نے قتل کر دیا تھا۔ نیتن یاہو کی قدامت پسند اور مذہبی انتہا پسند حکومت کے قیام کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی کیونکہ نیتن یاہو نے نہ صرف ان مذاکرات کے انعقاد سے انکار کر دیا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ جسے فلسطینی ریاست کا حصہ قرار دیا گیا تھا‘ میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنا شروع کر دیں تاکہ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ناممکن ہو جائے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ سب اقدامات اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو نظر انداز اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری خاموش ہے۔ عرب ممالک ہیں کہ اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی بجائے اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بے تاب ہیں ۔ ایسے میں فلسطینیوں کے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ سات اکتوبر جیسے اقدامات کے ذریعے عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کریں۔ حماس نے اس اقدام کے ذریعے اسرائیل کو یہ پیغام دیاہے کہ فلسطینی ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔