بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج اس کی ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے حوالے سے پالیسی پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے؟ اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے‘ کیونکہ بھارت کی ہر حکومت‘ جس میں کانگریس کے مختلف ادوار بھی شامل ہیں‘ نے علاقائی ممالک مثلاً پاکستان‘ نیپال‘ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور مالدیپ کو ہمیشہ کلچرل ایکسٹینشنز اور اپنا حلقۂ اثر گردانا ہے اور اسے عملی صورت دینے کی کوشش میں تقریباً تمام ہمسایہ ممالک کے خالصتاً اندرونی معاملات میں مداخلت بھی کی ہے۔ مثلاً 1950ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے اپنی سلامتی اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ دفاعی معاہدہ کیا تو بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے واویلا شروع کردیا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں سرد جنگ بھارت کی دہلیز تک آ پہنچی ہے۔ اس سے قبل 1950ء میں نیپال میں ایک مدت سے قائم رانا خاندان کے موروثی اقتدار کے خلاف نیپالی کانگرس کی قیادت میں چلنے والی تحریک کو بھارت کی کھلم کھلا حمایت حاصل تھی۔ آزادی کے بعد سکم کی طرح بھارت بھوٹان کو بھی اپنے اندر ضم کرنا چاہتا تھا مگر بھوٹان میں آزادی اور خودمختاری کی حامی قوتوں نے بھرپور مزاحمت کی۔ بھارت کے ساتھ دفاعی اور خارجہ امور کے شعبوں میں تعاون کے باوجود بھوٹان نے نہ صرف اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھا بلکہ آہستہ آہستہ بھارت کے کنٹرول سے نکل کر وہ چین کے قریب ہوتا گیا۔ صدر ضیا الرحمن کے دور میں بنگلہ دیش نے چین سے تعلقات میں بہتری لانے کے بعد بیجنگ سے ہتھیار حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے اس کی سخت مخالفت کی‘ حالانکہ بنگلہ دیش کو چین سے ملنے والے یہ ہتھیار کسی لحاظ سے بھی بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ تھے۔
بھارت کی دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی سب سے نمایاں مثال سری لنکا ہے جسے ایک طویل عرصے تک تامل مسلح بغاوت کا سامنا رہا۔ اس پر قابو پانے کیلئے سابق صدر جے وردھنے نے بین الاقوامی برادری‘ بالخصوص برطانیہ‘ چین اور پاکستان سے مدد مانگی۔ بھارت میں اس وقت کانگرس کی حکومت تھی اور راجیو گاندھی وزیراعظم تھے۔ انہوں نے سری لنکا کے جنوبی ایشیائی خطے کے باہر سے مدد مانگنے کے اقدام کی مخالفت کی اور بھارت کی عسکری امداد کی پیشکش کی بلکہ سری لنکن حکومت کو اس پیشکش کو قبول کرنے پر مجبور بھی کیا۔ اس پیشکش کے تحت بھارت نے انڈین امن فوج کے نام سے فوجی دستے سری لنکا میں اتار دیے۔ اگرچہ تاریخی لحاظ سے بھارت سری لنکا کے تامل سنہالی جھگڑے میں اول الذکر کا حامی رہا مگر راجیو گاندھی نے طاقت کے استعمال کے ذریعے تامل باغیوں کی مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کی کوشش کی‘ جس کی تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے مزاحمت کی‘ نتیجتاً بھارتی فوجی دستوں اور تامل باغیوں میں لڑائی چھڑ گئی جس میں بھارتی فوجی دستوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ آخرکار بھارت کو سری لنکا سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں۔
2014ء میں نریندر مودی جب پہلی بار بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے چین اور پاکستان کے خلاف سخت گیر اور جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا کیونکہ ان کے نزدیک چین بھارت کے ساتھ ہمالیائی سرحد کے پاس لداخ میں ایسے علاقوں میں اپنی افواج داخل کر رہا تھا جو مودی کے دعوے کے مطابق‘ بھارت کے علاقے تھے جبکہ پاکستان کے ساتھ (اُس وقت) کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر شدید جھڑپیں جاری تھیں۔ اگرچہ اِس وقت چین اور بھارت کے مابین سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ بند ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان وسیع پیمانے پر دو طرفہ تجارت جاری ہے مگر امریکہ کے انڈو پیسفک اتحاد میں بھارت کی شمولیت نے چین اور بھارت کے تعلقات کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ اگرچہ مودی ہی کے دور میں بھارت نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور دونوں ممالک برکس کے رکن بھی ہیں مگر نئی دہلی اور بیجنگ خطے میں ایک دوسرے کے عزائم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات اگست 2019ء سے مکمل طور پر منقطع ہیں۔ اس کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی حکومت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات ہیں۔اس عرصہ میں دونوں جانب سے چند مثبت اقدامات بھی کیے گئے جن میں فروری 2021ء میں لائن آف کنٹرول پر 2003ء کے معاہدے کے مطابق سرحد پار سے ایک دوسرے کے مورچوں پر فائرنگ اور گولا باری ختم کر کے امن قائم کرنے پر اتفاق بھی شامل ہے‘ لیکن ان اقدامات کا مقصد تعلقات کو مزید خراب اور کشیدہ ہونے سے بچانا ہے۔ جہاں تک اگست 2019ء سے چل رہے ڈیڈلاک کا تعلق ہے تو اسے ختم کرنے کی طرف ہنوز کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اکثر مبصرین کی رائے میں مودی کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بھی نہ صرف اس طرف کسی پیش قدمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب اور کشیدہ ہو سکتے ہیں کیونکہ مودی نے انتخابات میں ہندو اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی۔ 2019ء کے انتخابات سے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی کی بھاری کامیابی پلوامہ واقعے کو اپنے حق میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے سبب تھی۔ اس بار بھی وہ پاکستان سے خطرے کی ڈگڈگی بجا کر ہندوئوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے تھے مگر وہ ہندو ووٹرز‘ جنہوں نے 2019ء میں لوک سبھا کی 303 سیٹیں بی جے پی کے نام کی تھیں‘ اس دفعہ انہوں نے نہ تو بھارتی مسلمانوں اور نہ ہی پاکستان کے بارے میں نریندر مودی کی ہرزہ سرائی سے کوئی اثر لیا اور 240 سیٹوں کیساتھ مودی کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
اپنی تیسری مدت میں نریندر مودی نسبتاً ایک کمزور وزیراعظم ثابت ہوں گے اور وہ اپنی کابینہ میں شامل ان شخصیات کی حمایت کے محتاج رہیں گے جو ہندوتوا کے نام پر بھارت میں انتہاپسند ہندو راج کے نفاذ کے خلاف ہیں؛ البتہ اس نئی اور کمزور پوزیشن میں مودی پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور انتخابات میں عوامی حمایت میں کمی کے رجحان کو بدلنے کیلئے نہ صرف داخلی محاذ بلکہ ہمسایہ ممالک کے بارے میں بھی پہلے سے زیادہ جارحانہ پالیسی اختیار کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بی جے پی ایک عرصے سے نیپال میں قدم جمانے کی کوشش کرتی چلی آ رہی ہے۔ حال ہی میں وہاں بادشاہت کی بحالی کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے کیونکہ بادشاہت کی بحالی کی آڑ میں بی جے پی کا ٹارگٹ نیپال کو دوبارہ ایک ہندو ریاست بنانا ہے۔ واضح رہے کہ بادشاہت کے 240 سالہ دور میں نیپال سرکاری طور پر ایک ہندو ریاست تھا مگر 2008ء میں بادشاہت کے خاتمے اور 2015ء میں نئے آئین کے نفاذ کے بعد اسے ایک سیکولر ملک ڈکلیئر کر دیا گیا۔ دوسری جانب نریندر مودی نئی حکومت میں اپنی کمزور پوزیشن کو مستحکم کرنے اور ہندو انتہا پسندی کا ایک دفعہ پھر چیمپئن بننے کیلئے سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ پر عمل درآمد کو تیز کر کے بی جے پی کے دیرینہ ٹارگٹ ''کامن سول کوڈ‘‘ کے نفاذ میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اپنی تقریبِ حلف برداری میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کو دعوت نہ بھیج کر نریندر مودی نے پاکستان کے بارے میں اپنے عزائم کو عیاں کر دیا ہے‘ تاہم گزشتہ 77 سال کی پاک بھارت تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے اپنے محرکات ہیں‘ جو اکثر مواقع پر نہ صرف افراد بلکہ برسر اقتدار پارٹیوں سے بھی بالا ہو کر دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈرامائی تبدیلیوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔