لگ بھگ گزشتہ دو برس سے خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور ان کی چوکیوں پر دہشت گردوں کے حملوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اب لڑکیوں کے سکولوں پر حملوں اور ان کو نذرِ آتش کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے نہ صرف خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کے سکولوں کو تباہ کرنے کی اپنی سابقہ سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں بلکہ ان کا دائرہ کار بلوچستان تک بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے علاقہ قلات میں یکے بعد دیگرے لڑکیوں کے تین سکولوں کو شرپسندوں نے حملہ کرکے آگ لگا دی۔ ان میں شمالی وزیرستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میرم شاہ‘ جنوبی وزیرستان اور بلوچستان کی قلات ڈویژن کے ضلع سوراب میں واقع لڑکیوں کے سکول شامل ہیں۔ قبائلی اضلاع میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں لڑکیوں کے سکولوں کی تباہی کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ اس میں 2012ء کے بعد فوجی آپریشنز کی وجہ سے تعطل پیدا ہو گیا تھا مگر یہ سلسلہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد دوبارہ شروع ہو گیا۔ بلوچستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کے حمایت یافتہ دہشت گرد ملک کے اس اہم صوبے میں اپنی مذموم کارروائیاں کس حد تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں سکیورٹی فورسز پر حملوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ وہ شہریوں پر اپنے انتہا پسندانہ نظریے کو نافذ کرنے کے لیے ہر حد پار کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی غرض سے ان کے سکولوں پر حملے کرنے اور نذرِ آتش کرنے سے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ آئینِِ پاکستان کے آرٹیکل25 اے کے مطابق تعلیم حاصل کرنا بلا کسی رنگ و نسل اور جنس کے امتیاز کے ہر پاکستان کا بنیادی حق ہے اور پانچ سے16 سال کی عمر کے بچے اور بچیوں کو تعلیم مہیا کرنا ریاست کا لازمی فریضہ ہے مگر گزشتہ76 برسوں میں ہر حکومتوں کی غفلت اور عدم توجہی کی بنا پر ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کا شمار اب تک اَن پڑھ لوگوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں قومی سطح پر پڑھے لکھے لوگوں کی اوسط تعداد 62.3فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ76 سال گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک پاکستانیوں کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی پڑھنے لکھنے سے محروم ہے۔ پڑھنے اور لکھنے کے قابل لوگوں کی تعداد کا اگر ملک کے مختلف خطوں اور خواتین اور مردوں کے درمیان فرق کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ہوشربا اور شرمناک حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک اور قابلِ رحم حالت ملک کے شمالی علاقوں اور بلوچستان میں رہنے والی آبادی بالخصوص خواتین کی ہے۔ یونیسیف کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی کل تعداد کا صرف27 فیصد حصہ سکول جاتا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے پیش کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بلوچستان کے دیہی علاقوں میں خواندہ خواتین کی تعداد صرف دو فیصد ہے جسے دنیا بھر میں سب سے کم بیان کیا جاتا ہے۔ گلوبل ایجوکیشن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے مطابق دنیا کے120 ممالک میں سے شرح خواندگی کے حساب سے پاکستان 113ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں صورتحال بلوچستان کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے‘ پھر بھی ان علاقوں میں خواندگی کی شرح قومی اوسط سے بہت کم یعنی 62.3فیصد کے مقابلے میں آٹھ فیصد سے بھی کم ہے اور خواتین میں خواندگی کی شرح اس سے بھی کم۔ قبائلی علاقوں سے ایک ضلع باجوڑ میں خواتین میں خواندگی کی شرح صرف تین فیصد ہے۔ سکول ڈراپ آؤٹ ریٹ بھی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ قبائلی علاقوں میں سے ایک ضلع میں ایک لاکھ70 ہزار خواتین میں سے صرف40 ہزار پرائمری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں لیکن مڈل تک ان کی تعداد صرف4500 اور ہائی سکول تک 1500رہ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کی طرح کالعدم ٹی ٹی پی بھی لڑکیوں کی پرائمری سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی مخالف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حملوں کا نشانہ لڑکیوں کے مڈل اور ہائی سکول ہیں۔ گزشتہ ماہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ بلوچستان کے علاقے قلات میں ٹی ٹی پی کے ہاتھوں نذر آتش ہونے والے لڑکیوں کے مڈل اور ہائی سکول تھے۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ دہشت گردوں کی مذموم سرگرمیوں کا نشانہ ملک کے وہ علاقے بن رہے ہیں جہاں خواتین میں خواندگی کی شرح تاریخی طور پر پہلے ہی بہت کم چلی آ رہی ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ صورتحال چار وجوہات کی بنا پر ہے۔ غربت‘ آبادی سے سکولوں کا بہت زیادہ فاصلے پر ہونا‘ معاشرتی اور سماجی رویے (والدین اور خاندان کے مردوں کی طرف سے مخالفت) اور مذہبی عقائد کی غلط تشریح۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے دیہی حصوں میں غربت کا گراف (71سے 73 فیصد) سب سے اونچا ہے اور گاؤں سے دور سکول ہونے کی وجہ سے دیہاتی لڑکیوں کے لیے سکول جانا مشکل ہوتا ہے اور یوں یہ فیکٹر دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین میں ناخواندگی کا سبب بنتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ والدین اور خاندان کے مرد لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعلیم کو ترجیح نہیں دیتے اور مذہبی عقائد کی غلط تشریح لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ حکومتوں کی عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت پر مبنی رویے نے بلوچستان سے لے کر ملک کے شمالی علاقوں تک کی پٹی میں رہنے والے لوگوں کو غریب‘ پسماندہ‘ تعلیم اور روزگار سے محروم رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انگریزوں کے نو آبادیاتی اور سامراجی دور میں اس قسم کے رویے اور پالیسی کی سمجھ آتی تھی کیونکہ ان کے نزدیک اس پٹی کی ہندوستان میں ان کے راج اور افغانستان کے درمیان ایک بفر زون سے زیادہ اہمیت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے ان علاقوں میں سکولوں اور کالجوں کے بجائے چھاؤنیاں قائم کیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ انگریزوں کے چلے جانے اور آزادی کے حصول کے بعد بھی ہم نے انگریزوں کی پالیسی جاری رکھی بلکہ 1980ء کے بعد یہ علاقے افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں لڑی جانے والے جنگ کے لیے فرنٹ لائن ایریا میں تبدیل کر دیے گئے۔ جس سے لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے اور اس کے لیے مناسب تعداد میں سکول اور کالج تعمیر کرنے کے بجائے جہادی کلچر کو فروغ ملا۔ لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت اسی کلچر کی پیداوار ہے۔ قارئین اس کلچر کی اگر ایک جھلک دیکھنا پسند کریں تو اگست2019 ء میں کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے شمالی وزیرستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میرم شاہ میں اردو میں لکھے ہوئے ایک صفحے پر مشتمل پیغام کو پڑھ لیں۔ اس لیف لیٹ میں کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے عوام الناس کو خبردار کیا گیا تھا کہ پورے شمالی وزیرستان میں اونچی آواز میں میوزک سننے‘ پولیو ویکسین پلانے اور گھر کے مرد حضرات کے بغیر عورتوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کاغذ پر مزید یہ لکھا تھا کہ عوام کی ہر سرگرمی پر طالبان کی نظر ہے کیونکہ ہر تین میں سے ایک فرد طالبان کا مخبر ہے‘ اس لیے طالبان کے احکام کی خلاف ورزی پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت نے اس بیانیے کا توڑ سامنے لانے کی کوشش نہیں کی۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں لڑکیوں کے سکولوں کی تباہی طالبان کے اسی بیانیے کا عمل مظاہرہ ہے۔