گزشتہ سال 8 اکتوبر سے شروع ہونے والے غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے تاحال جاری ہیں۔ اسرائیل کے ان حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی اموات 40 ہزار سے زائد ہو چکی ہیں اور ان میں اُن 10 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شمار نہیں کیا جاتا جن کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دب کر وہ بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہیں ابھی لاپتا قرار دیا جاتا ہے۔ چالیس ہزار فلسطینی شہدا میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اسرائیل کی بربریت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ ہفتے غزہ کے شمال میں ایک گھر پر بمباری کی گئی جس سے چھ بچوں اور اُن کی ماں پر مشتمل پورا خاندان ہلاک ہو گیا۔ ان بچوں میں ایک بچہ ایسا بھی تھا جس کی عمر محض اٹھارہ ماہ تھی۔ ایسی ہولناک اور انسانیت سوز کارروائیوں کے باوجود غزہ کے طول و عرض میں اسرائیل کی زمینی‘ فضائی اور بحری جہازوں سے گولہ باری اور بمباری ہنوز جاری ہے اور بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی آبادی کیلئے اُن کے ملک میں کوئی کونہ باقی نہیں بچا جہاںوہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں کی گولہ باری اور بمباری سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ اس پر مستزادیہ کہ اسرائیل نے غزہ کیلئے پانی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ دوائیوں اور خوراک کی ترسیل پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اسرائیلی بمباری سے بچنے کیلئے نہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ پناہ لینے کیلئے محوِ سفر ہونا پڑتا ہے بلکہ پانی‘ ادویات اور خوراک کی قلت سے مختلف بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں پولیو کی وبا پھوٹ پڑی ہے اور گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد بچوں میں اس بیماری کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ دس ماہ سے زیادہ جاری رہنے والی فلسطینیوں کی اس نسل کشی کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جن ملکوں میں ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اس نسل کشی کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا اُن میں امریکہ کے علاوہ یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں جن کی حکومتوں کی تائید اور عملی امداد ہی سے اسرائیل گزشتہ دس ماہ میں لاکھوں ٹن گولہ بارود نہتے فلسطینیوں پر برسا چکا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے لیکن تجزیہ کاروں کے خیال میں ایسے بیانات صرف اپنے ملکوں کے عوام کو خاموش کرانے کیلئے دیے جاتے ہیں۔ امریکہ سمیت مغربی دنیا کے کسی ملک نے غزہ پر اسرائیل کے ظالمانہ ہاتھ کو روکنے کی کوشش نہیں کی‘ بلکہ اسے اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کر کے فلسطینی باشندوں کی ہلاکت میں اسرائیل کی اعانت کی ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسرائیل کی فضائیہ‘ بری اور بحری افواج کی وحشیانہ کارروائیوں کیلئے عملی طور پر مدد کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ہلاکت اور غزہ کی تباہی پر محض جنگ بندی کی اپیل کرنا مگرمچھ کے آنسو بہانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ منافقت‘ دوغلاپن اور صریح چشم پوشی کا مظاہرہ کرنیوالوں میں امریکہ سب سے آگے ہے‘ جسکے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے غزہ بحران کے آغاز سے اب تک مشرقِ وسطیٰ کا نو بار دورہ کیا ہے لیکن اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اپنے تازہ ترین دورہ کے دوران انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ڈھائی گھنٹے کی ملاقات کی‘ جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ اسرائیل نے امریکی صدر جوبائیڈن کی تجویز کردہ جنگ بندی کی پیشکش پر مذاکرات میں شمولیت کی ہامی بھر لی ہے۔
چند روز قبل اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قطر کے وزیراعظم سے بات چیت کی تھی جبکہ انٹونی بلنکن نے بھی قطر کے وزیراعظم سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔ غزہ میں فریقین کو جنگ بندی پر راضی کرنے کیلئے اب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مذاکرات ہوں گے۔ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی مذاکرات میں شمولیت کے بعد اب حماس کو بھی چاہیے کہ وہ اس تجویز کو قبول کر ے اور قاہرہ مذاکرات میں شرکت کرے مگر حماس کے ترجمان نے امریکی تجویز کو رد کر دیا ہے کیونکہ اس میں اسرائیل کو غزہ میں مستقل فوجی قبضہ برقرار رکھنے اور جنگ جاری رکھنے کی شرائط کی اجازت دی گئی ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں مکمل اور مستقل جنگ بندی‘ غزہ کے تمام علاقوں سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 31 مئی کو اسرائیل اور حماس کے دو مختلف اور یکسر متضاد مؤقف میں فاصلہ کم کرنے کیلئے امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک تجویز پیش کی تھی جس میں یرغمالیوں کی مرحلہ وار واپسی‘ غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی‘ جنوبی غرہ سے شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی واپسی اور غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور لاکھوں ٹن ملبہ اٹھانے کا روڈمیپ دیا گیا تھا۔ اس تجویز پر دو جولائی کو مصر اور قطر کی وساطت سے اسرائیل اور حماس کے مابین ایک سمجھوتے پر اتفاق ہوا جس پر عمل درآمد کیلئے مذاکرات کے مزید ادوار ہونا تھے۔ مگر 31 جولائی کو ایران کے دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے مذاکراتی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔ دوسری جانب اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے انتہا پسند اراکین کے دباؤ میں آ کر دو نئی شرائط بھی پیش کر دیں۔ ان میں سے ایک شرط مصر اور غزہ کی سرحد پر واقع دو کوریڈورز‘ ڈیلفی اور نیٹ زارم پر کنٹرول کیلئے اسرائیلی فوجوں کی تعیناتی اور دوسری شرط غزہ کے جنوب سے شمال میں اپنے گھروں کو واپس آنے والے بے گھر فلسطینیوں کی تلاشی سے متعلق ہے۔ حماس نے اسرائیل کی ان دونوں شرائط کو مسترد کر دیا اور ان کی موجودگی میں قاہرہ مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ کسی نئے مذاکراتی دور کے بجائے اس نے دو جولائی کے سمجھوتے پر عملدرآمد کیلئے مذاکرات کا مطالبہ کیا جس میں اسرائیل کی ان دونوں شرائط کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ حماس ترجمان کے مطابق امریکہ نے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
ایک طرف صدر بائیڈن اپنی پارٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں فوری جنگ بندی اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنے کا مطالبہ کرنے والے ڈیمو کریٹ اراکینِ کانگرس و سینیٹ کو رام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسرائیل کیلئے ہتھیاروں اور گولہ بارود کے 20 ارب ڈالر کے پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے حماس نے امریکہ پر جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو اُس کی تمام تر کوشش 251 میں سے باقی بچ جانے والے 110یرغمالیوں کی رہائی ہے۔ نیتن یاہو کو یرغمالیوں کے لواحقین اور اپوزیشن کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں غزہ پر حملے کا آغاز کرتے وقت نیتن یاہو نے جنگ کے جن تین مقاصد کا اعلان کیا تھا ان میں یرغمالیوں کی واپسی سرفہرست تھی جبکہ دیگر دو مقاصد میں حماس کا مکمل خاتمہ اور غزہ میں سکیورٹی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا شامل تھے۔ ان مقاصد کو حاصل کیے بغیر اسرائیل مکمل اور مستقل جنگ بندی پر راضی نہیں ہونا چاہتا۔ وہ مصر کی سرحد پر غزہ کے دو کوریڈورز پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ حماس باہر سے اسلحہ اور ہتھیار سمگل کر کے ایک دفعہ پھر اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ نہ بن سکے۔تاہم ان کوریڈورز پر اسرائیل کا کنٹرول‘ مصر کی نظر میں 1979ء کے مصر‘ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود امریکہ قاہرہ مذاکرات پر اسلئے اصرار کر رہا ہے کیونکہ اسکی نظر میں ان مذاکرات کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی اور محدود تعداد میں یرغمالیوں کی واپسی سے غزہ کی جنگ کو ایک وسیع علاقائی تصادم میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔(جاری)